ETV Bharat / bharat

طلبہ کی حمایت میں اے ایم یو پروفیسرعرشی خان کا استعفی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی رات طلبہ کے ساتھ ہوئے تشدد پر وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی خاموشی سے ناراض ہو کر شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر عرشی خان نے انٹرنیشنل ریلیشن کمیٹی کوآرڈینیٹر کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔

پروفیسر عرشی خان
پروفیسر عرشی خان
author img

By

Published : Dec 26, 2019, 3:13 AM IST

واضح رہے کہ 15 دسمبر کی شام جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے کئے گئے تشدد کے خلاف اے ایم یو طلبہ نے بڑی تعداد میں مولانا آزاد لائبریری سے باب سید تک احتجاجی مارچ نکالا تھا اس دورام طلبہ نے شہریت ترمیمی قانون اور این ار سی کی بھی مخالفت کی تھی۔

اس مظاہرے کے دوران ہی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کر رہے طلبہ کے علاوہ لائبریری، کینٹین اور ہاسٹلز میں موجود طلبہ کے کمروں میں گھس کر نہ صرف آنسو گیس کے گولے داغے بلکہ کیمپس میں کھڑی گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی، متنازعے نعرے لگائے اور طلبہ کو بری طرح سے تشدد اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنانے کے ساتھ ہی ان پر ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا۔

پروفیسر عرشی خان
پروفیسر عرشی خان

پولیس پر طلبہ کو دوڑا دوڑا کر مارنے کا بھی الزم ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پٹائی اتنی شدید تھی کہ اب بھی ان میں سے زیادہ تر طلبہ زیر اعلاج ہیں۔ دوسری جانب تقریبا چالیس سے زائد طلبہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک طلبہ کے ہاتھ کا زخم اتنا زیادہ تھا کہ ان کو بچانے کے لئے ڈاکٹرز کو ان کے ہاتھ کو کاٹنا بھی پڑا ہے۔

اس بربریت کے بعد سے ہی یونیورسٹی طلبہ، ملازمین اساتذہ و علیگ برادری یونیورسٹی وائس چانسلر سے خفا ہیں اور وائس چانسلر و رجسٹر دونوں سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


پروفیسر عرشی خان نے کیمرے پر آنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنا استعفی وائس چانسلر کو دے دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور اس یونیورسٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سبھی زخمی طالب علموں اور ان کے والدین سے رابطہ قائم کریں اور ان کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔

پروفیسر عرشی خان نے اس پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی کیا، انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے طلبہ کے خلاف پولیس نے تشدد کیا ہے اس کی سچائی ایک صاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعہ ہی سامنے لائی جا سکیے گی۔

واضح رہے کہ 15 دسمبر کی شام جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے کئے گئے تشدد کے خلاف اے ایم یو طلبہ نے بڑی تعداد میں مولانا آزاد لائبریری سے باب سید تک احتجاجی مارچ نکالا تھا اس دورام طلبہ نے شہریت ترمیمی قانون اور این ار سی کی بھی مخالفت کی تھی۔

اس مظاہرے کے دوران ہی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کر رہے طلبہ کے علاوہ لائبریری، کینٹین اور ہاسٹلز میں موجود طلبہ کے کمروں میں گھس کر نہ صرف آنسو گیس کے گولے داغے بلکہ کیمپس میں کھڑی گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی، متنازعے نعرے لگائے اور طلبہ کو بری طرح سے تشدد اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنانے کے ساتھ ہی ان پر ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا۔

پروفیسر عرشی خان
پروفیسر عرشی خان

پولیس پر طلبہ کو دوڑا دوڑا کر مارنے کا بھی الزم ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پٹائی اتنی شدید تھی کہ اب بھی ان میں سے زیادہ تر طلبہ زیر اعلاج ہیں۔ دوسری جانب تقریبا چالیس سے زائد طلبہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک طلبہ کے ہاتھ کا زخم اتنا زیادہ تھا کہ ان کو بچانے کے لئے ڈاکٹرز کو ان کے ہاتھ کو کاٹنا بھی پڑا ہے۔

اس بربریت کے بعد سے ہی یونیورسٹی طلبہ، ملازمین اساتذہ و علیگ برادری یونیورسٹی وائس چانسلر سے خفا ہیں اور وائس چانسلر و رجسٹر دونوں سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


پروفیسر عرشی خان نے کیمرے پر آنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنا استعفی وائس چانسلر کو دے دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور اس یونیورسٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سبھی زخمی طالب علموں اور ان کے والدین سے رابطہ قائم کریں اور ان کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔

پروفیسر عرشی خان نے اس پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی کیا، انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے طلبہ کے خلاف پولیس نے تشدد کیا ہے اس کی سچائی ایک صاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعہ ہی سامنے لائی جا سکیے گی۔

Intro:Body:

english


Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.