واضح رہے کہ 15 دسمبر کی شام جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے کئے گئے تشدد کے خلاف اے ایم یو طلبہ نے بڑی تعداد میں مولانا آزاد لائبریری سے باب سید تک احتجاجی مارچ نکالا تھا اس دورام طلبہ نے شہریت ترمیمی قانون اور این ار سی کی بھی مخالفت کی تھی۔
اس مظاہرے کے دوران ہی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کر رہے طلبہ کے علاوہ لائبریری، کینٹین اور ہاسٹلز میں موجود طلبہ کے کمروں میں گھس کر نہ صرف آنسو گیس کے گولے داغے بلکہ کیمپس میں کھڑی گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی، متنازعے نعرے لگائے اور طلبہ کو بری طرح سے تشدد اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنانے کے ساتھ ہی ان پر ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا۔
پولیس پر طلبہ کو دوڑا دوڑا کر مارنے کا بھی الزم ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پٹائی اتنی شدید تھی کہ اب بھی ان میں سے زیادہ تر طلبہ زیر اعلاج ہیں۔ دوسری جانب تقریبا چالیس سے زائد طلبہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک طلبہ کے ہاتھ کا زخم اتنا زیادہ تھا کہ ان کو بچانے کے لئے ڈاکٹرز کو ان کے ہاتھ کو کاٹنا بھی پڑا ہے۔
اس بربریت کے بعد سے ہی یونیورسٹی طلبہ، ملازمین اساتذہ و علیگ برادری یونیورسٹی وائس چانسلر سے خفا ہیں اور وائس چانسلر و رجسٹر دونوں سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر عرشی خان نے کیمرے پر آنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنا استعفی وائس چانسلر کو دے دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور اس یونیورسٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سبھی زخمی طالب علموں اور ان کے والدین سے رابطہ قائم کریں اور ان کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔
پروفیسر عرشی خان نے اس پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی کیا، انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے طلبہ کے خلاف پولیس نے تشدد کیا ہے اس کی سچائی ایک صاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعہ ہی سامنے لائی جا سکیے گی۔