چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگنے کہا ہے کہ ووہان سے شروع ہوئے کورونا وائرس انفیکشن کو روکنے کے لئے کچھ ملکوں نے اپنی طرف سے بچاؤ کے کافی طریقے کئے ہیں لیکن امریکہ نے کچھ زیادہ ہی سختی برتی ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان چونینگ نے نامہ نگاروں سے کہا ہے کہ 'زیادہ تر ملکوں نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے چین کے اقدامات کی ستائش کی ہے اور کچھ ملکوں نے اپنی سرحدوں پر زوردار سختی برتی ہے تاکہ اس بیماری سے بچا جاسکے۔اس میں چینی مسافروں کے دیگر ملکوں میں داخلے پر پابندی بھی ہے اور ہم ان کے اس طرح کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں لیکن امریکہ نے کچھ زیادہ ہی پابندی لگادی ہے'۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ نے خاص طور پر جو پابندیاں لگائی ہیں وہ زیادہ ہیں، جو عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'یہ واضح طور پر ریاستہائے متحدہ کی زیادتی ہے کہ عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سفارشات کے برخلاف ضرورت سے زیادہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے'۔
چین میں کورونا وائرس سے 17000 سے زیادہ افراد متاثر اور 361 افراد کی موت ہوچکی ہے ، جس کی ابتدا وسطی شہر ووہان میں ہوئی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے جاپان تک دو درجن سے زیادہ دوسرے ممالک میں اس وائرس کے اثرات کی اطلاع ملی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس تبصرے سے مختلف ہے کہ امریکی عہدیداروں نے زبردست مدد کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد اب تک کوئی بھی مدد حاصل نہیں ہوئی۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے ڈر سے 200 افراد تائیوان لوٹیں گے
تاہم ان کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے ایک انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ چین نے ابھی تک امریکی امداد کی پیش کش قبول نہیں کی ہے۔
دو دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں نے صرف 18 ماہ کی تجارتی جنگ سے ہی تعلقات کو ختم کرنا شروع کیا ہے اس کے بعد کورونا وائرس پر تناؤ پیدا ہوا ہے۔
سنگاپور ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور ویتنام نے بھی چین سے سفر پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ متعدد ممالک اپنے شہریوں کو وہاں سے نکال رہی ہیں۔