ETV Bharat / bharat

ماہنامہ 'تہذیب الاخلاق' کی منفرد شناخت برقرار

ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماہنامہ رسالہ 'تہذیب الاخلاق' علمی دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔

author img

By

Published : Jan 30, 2020, 3:29 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 1:14 PM IST

Aligarh Muslim University urdu monthly organ Tahzeeb Ul Akhlaq
ماہنامہ 'تہذیب الاخلاق' کی تاریخ اور مقصد

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تہذیب الاخلاق کے خصوصی شمارہ 'صدی نمبر' کی اشاعت کے سلسلے میں حکیم سید ظل الرحمٰن کی صدارت میں ادارے کی ایک میٹنگ ہوئی۔

تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں طے پایا کہ مسلم یونیورسٹی کی صدسالہ پیش رفت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خصوصی نمبر شائع کیا جائے اور سرسید نے جن مقاصد کی تکمیل کے لیے 1870 میں تہذیب الاخلاق جاری کیا تھا، ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اصلاحی مضامین شائع کیے جائیں۔

ہر ماہ ماہنامہ تہذیب الاخلاق کی تقریبا 2000 کاپی شائع ہوتی ہیں۔ اس کی قیمت فی شمارہ پندرہ روپئے ہے جب کہ زرسالانہ 100 سو روپئے ہے۔

ماہنامہ 'تہذیب الاخلاق' کی تاریخ اور مقصد

وہیں بیرونی ممالک کے لیے ہوائی ڈاک 30 امریکی ڈالر رکھی گئی ہے اور جو اس رسالہ کو تاحیات پڑھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اس کی قیمت صرف لایف ممبرشپ 1500 روپیہ ہے۔

میٹنگ کا انعقاد ادارہ تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کیا تھا، جس میں ماہر سرسید اور سرسید اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر شاہ محمد، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پروفیسر سید علی محمد نقوی، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد، تہذیب الاخلاق کے سابق مدیر اور نا مور ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی، شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی، سابق صدر پروفیسر صغیر افراہیم بیگ، صدر شعبہ ترسیل علامہ پروفیسر شافع قدوائی، فکرو نظر کے مدیر پروفیسر سید محمد ہاشم، فلسفہ کے پروفیسر عبداللطیف کاظمی، شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے صدر
نسیم احمد خاں اور اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار وغیرہ نے حصہ لیا۔

تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تہذیب الاخلاق کی تاریخ یہ ہے کہ جب سرسیداحمدخان لندن سے واپس آئے تو وہاں انہوں نے تعلیم، ترقی اور تہذیب کی رفتار دیکھیں تو یہ لگا کہ ہماری ہندوستانی قوم خاص طور سے مسلمان بہت پیچھے ہیں اور ان کو آگے جانا ہے اور اس کے لیے پہلے انہوں نے کالج قائم کرنے کا ارادہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ کہ ان میں جو اخلاقیت کی کمزوری ہے, آگے پڑھنے کی جو کمی ہے، آپس کی دشمنی ہے, احساس کمتری ہے اس کو دور کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے جس کا نام انہوں نے تہذیب الاخلاق رکھا۔

تہذیب الاخلاق کا سرورق پڑھیں گے تو اس میں انہوں نے شوشل ریفارمر کا نام دیا ہے یعنی سماجی اصلاح اس میں تعلیم، تہذیب، ثقافت، مشار تی اعتبار سے شامل ہیں۔

سنہ 1870 میں سرسید نے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ مختلف لوگوں نے ان کے مضامین پر اعتراض بھی کیا لیکن سرسید احمد خاں کا ایک مشن تھا اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کی کچھ دنوں کے بعد تہذیب الاخلاق بند ہوگیا۔ پھر لوگوں نے جدوجہد کی کے اگر اس طرح ہمت ہار گے تو مشن آگے نہیں بڑھے گا۔ اس کے بعد پھر تہذیب الاخلاق بند ہوا آخری مرتبہ۔

اے ایم یو کے وائس چانسلر مرحوم سید حامد صاحب انہوں نے 1982 میں اس کو دوبارہ جاری کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ جب سے آج تک یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہوتا ہے

پروفیسر سعود عالم قاسمی نے مزید بتایا یہ عام شمار وہ ہیں جن میں لکھنے والے علی گڑھ کے طلباء، اولڈ بوائز بھی ہے، جس میں ریسرچ اسکالر بھی ہیں، پروفیسر بھی ہے اور باہر کی دنیا کے اردو میں لکھنے والے معتبر قلم کار حضرات ہے جن کا تعلق صرف ہندوستان سے نہیں ہے۔ کینیڈا سے بھی ہیں، برطانیہ سے بھی ہیں، پاکستان سے بھی ہیں۔

تہذیب الاخلاق ہر سال ایک نمبر شائع کرتا ہے خاص طور سے وہ سرسید نمبر ہے جو ہر برس اکتوبر میں شائع ہوتا ہے لیکن ابھی 28جنوری کو ایڈیٹوریل بورڈ اور سرسید مشن سے منسلک اساتذہ کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں یہ طے پایا تھا کہ کیا کہ 1870 کے بعد یہ یونیورسٹی بنی 1920 دسمبر میں ایکٹ منظور ہوا اسی کے اوپر ایک نمبر شائع کرنا چاہیے جو اس کی سوسالہ خدمات پر مشتمل ہو۔

یہ نمبر یا تو اکتوبر میں شائع ہو گا جو سرسیداحمدخان کی پیدائش ہے تقریبات کے موقع سے یا دسمبر میں شائع ہو گا جب یونیورسٹی کا ایکٹ منظور ہوا تھا ان دو مہینوں کے اندر یہ کبھی بھی شائع ہو سکتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام سنہ 1920 میں عمل میں آیا تھا اور رواں برس 2020 میں اس کے سو برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس اہم موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تہذیب الاخلاق خاص شمارہ شائع کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تہذیب الاخلاق کے خصوصی شمارہ 'صدی نمبر' کی اشاعت کے سلسلے میں حکیم سید ظل الرحمٰن کی صدارت میں ادارے کی ایک میٹنگ ہوئی۔

تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں طے پایا کہ مسلم یونیورسٹی کی صدسالہ پیش رفت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خصوصی نمبر شائع کیا جائے اور سرسید نے جن مقاصد کی تکمیل کے لیے 1870 میں تہذیب الاخلاق جاری کیا تھا، ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اصلاحی مضامین شائع کیے جائیں۔

ہر ماہ ماہنامہ تہذیب الاخلاق کی تقریبا 2000 کاپی شائع ہوتی ہیں۔ اس کی قیمت فی شمارہ پندرہ روپئے ہے جب کہ زرسالانہ 100 سو روپئے ہے۔

ماہنامہ 'تہذیب الاخلاق' کی تاریخ اور مقصد

وہیں بیرونی ممالک کے لیے ہوائی ڈاک 30 امریکی ڈالر رکھی گئی ہے اور جو اس رسالہ کو تاحیات پڑھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اس کی قیمت صرف لایف ممبرشپ 1500 روپیہ ہے۔

میٹنگ کا انعقاد ادارہ تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کیا تھا، جس میں ماہر سرسید اور سرسید اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر شاہ محمد، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پروفیسر سید علی محمد نقوی، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد، تہذیب الاخلاق کے سابق مدیر اور نا مور ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی، شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی، سابق صدر پروفیسر صغیر افراہیم بیگ، صدر شعبہ ترسیل علامہ پروفیسر شافع قدوائی، فکرو نظر کے مدیر پروفیسر سید محمد ہاشم، فلسفہ کے پروفیسر عبداللطیف کاظمی، شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے صدر
نسیم احمد خاں اور اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار وغیرہ نے حصہ لیا۔

تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تہذیب الاخلاق کی تاریخ یہ ہے کہ جب سرسیداحمدخان لندن سے واپس آئے تو وہاں انہوں نے تعلیم، ترقی اور تہذیب کی رفتار دیکھیں تو یہ لگا کہ ہماری ہندوستانی قوم خاص طور سے مسلمان بہت پیچھے ہیں اور ان کو آگے جانا ہے اور اس کے لیے پہلے انہوں نے کالج قائم کرنے کا ارادہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ کہ ان میں جو اخلاقیت کی کمزوری ہے, آگے پڑھنے کی جو کمی ہے، آپس کی دشمنی ہے, احساس کمتری ہے اس کو دور کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے جس کا نام انہوں نے تہذیب الاخلاق رکھا۔

تہذیب الاخلاق کا سرورق پڑھیں گے تو اس میں انہوں نے شوشل ریفارمر کا نام دیا ہے یعنی سماجی اصلاح اس میں تعلیم، تہذیب، ثقافت، مشار تی اعتبار سے شامل ہیں۔

سنہ 1870 میں سرسید نے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ مختلف لوگوں نے ان کے مضامین پر اعتراض بھی کیا لیکن سرسید احمد خاں کا ایک مشن تھا اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کی کچھ دنوں کے بعد تہذیب الاخلاق بند ہوگیا۔ پھر لوگوں نے جدوجہد کی کے اگر اس طرح ہمت ہار گے تو مشن آگے نہیں بڑھے گا۔ اس کے بعد پھر تہذیب الاخلاق بند ہوا آخری مرتبہ۔

اے ایم یو کے وائس چانسلر مرحوم سید حامد صاحب انہوں نے 1982 میں اس کو دوبارہ جاری کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ جب سے آج تک یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہوتا ہے

پروفیسر سعود عالم قاسمی نے مزید بتایا یہ عام شمار وہ ہیں جن میں لکھنے والے علی گڑھ کے طلباء، اولڈ بوائز بھی ہے، جس میں ریسرچ اسکالر بھی ہیں، پروفیسر بھی ہے اور باہر کی دنیا کے اردو میں لکھنے والے معتبر قلم کار حضرات ہے جن کا تعلق صرف ہندوستان سے نہیں ہے۔ کینیڈا سے بھی ہیں، برطانیہ سے بھی ہیں، پاکستان سے بھی ہیں۔

تہذیب الاخلاق ہر سال ایک نمبر شائع کرتا ہے خاص طور سے وہ سرسید نمبر ہے جو ہر برس اکتوبر میں شائع ہوتا ہے لیکن ابھی 28جنوری کو ایڈیٹوریل بورڈ اور سرسید مشن سے منسلک اساتذہ کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں یہ طے پایا تھا کہ کیا کہ 1870 کے بعد یہ یونیورسٹی بنی 1920 دسمبر میں ایکٹ منظور ہوا اسی کے اوپر ایک نمبر شائع کرنا چاہیے جو اس کی سوسالہ خدمات پر مشتمل ہو۔

یہ نمبر یا تو اکتوبر میں شائع ہو گا جو سرسیداحمدخان کی پیدائش ہے تقریبات کے موقع سے یا دسمبر میں شائع ہو گا جب یونیورسٹی کا ایکٹ منظور ہوا تھا ان دو مہینوں کے اندر یہ کبھی بھی شائع ہو سکتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام سنہ 1920 میں عمل میں آیا تھا اور رواں برس 2020 میں اس کے سو برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس اہم موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تہذیب الاخلاق خاص شمارہ شائع کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔

Intro:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تہذیب الاخلاق کے خصوصی شمارہ 'صدی نمبر' کی اشاعت کے سلسلے میں یونیورسٹی ٹریزرار ہم شری حکیم سید ظل الرحمن کی صدارت میں ادارے تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹوریل بورڈ اور دیگر اساتذہ کی ایک میٹنگ میں طے پایا کے مسلم یونیورسٹی کے سوسالہ پیش رفت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خصوصی نمبر شائع کیا جائے اور سرسید نے جن مقاصد کی تکمیل کیلئے 1870 میں تہزیبالاخلاق جاری کیا تھا ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اصلاحی مضامین شائع کیے جائیں۔

تہذیب الاخلاق ماہنامہ رسالہ کی تقریبا 2000 کاپی شائع ہوتی ہے ہر مہینے۔
جس کی فیس 15 روپے فی شمار ہے۔

زرسالانہ 1500 سو روپیے۔

زرسالانہ طلباء 100 سو روپئے۔

بیرونی ممالک کے لیے ہوائی ڈاک 30 امریکی ڈالر۔

لائف ٹائم ممبرشپ 1500 روپیہ ہے۔






Body:میٹنگ کا انعقاد ادارہ تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کیا تھا، جس میں ماہر سرسید اور سرسید اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر شاہ محمد، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پروفیسر سید علی محمد نقوی، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد، تہذیب الاخلاق کے سابق مدیر اور نا مور ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی، شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی، سابق صدر پروفیسر صغیر افراہیم بیگ، صدر شعبہ ترسیل علامہ پروفیسر شافع قدوائی، فکرو نظر کے مدیر پروفیسر سید محمد ہاشم، فلسفہ کے پروفیسر عبداللطیف کاظمی، شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے صدر مسٹر
نسیم احمد خاں اور اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت
ابرار نے حصہ لیا۔




Conclusion:تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تہذیب الاخلاق کی تاریخ یہ ہے کہ جب سرسیداحمدخان لندن سے واپس آئے تو وہاں انہوں نے تعلیم, ترقی اور تہذیب کی رفتار دیکھیں تو یہ لگا کہ ہماری ہندوستانی قوم خاص طور سے مسلمان بہت پیچھے ہیں اور ان کو آگے جانا ہے اور اس کے لیے پہلے انہوں نے کالج قائم کرنے کا ارادہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ کہ ان میں جو اخلاقیت کی کمزوری ہے, آگے پڑھنے کی جو کمی ہے، آپس کی دشمنی ہے, احساس کمتری ہے اس کو دور کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے جس کا نام انہوں نے تہذیب الاخلاق رکھا۔

تہذیب الاخلاق کا سرورق پڑھیں گے تو اس میں انہوں نے شوشل ریفارمر کا نام دیا ہے یعنی سماجی اصلاح اس میں تعلیم، تہذیب، ثقافت، مشار تی اعتبار سے شامل ہیں۔

1870 میں سرسید نے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ مختلف لوگوں نے ان کے مضامین پر اعتراض بھی کیا لیکن سرسید احمد خاں کا ایک مشن تھا اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کی کچھ دنوں کے بعد تہذیب الاخلاق بند ہوگیا۔ پھر لوگوں نے جدوجہد کی کے اگر اس طرح ہمت ہار گے تو مشن آگے نہیں بڑھے گا۔ اس کے بعد پھر تہذیب الاخلاق بند ہوا آخری مرتبہ۔
اے ایم یو کے وائس چانسلر مرحوم سید حامد صاحب انہوں نے 1982 میں اس کو دوبارہ جاری کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ جب سے آج تک یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہوتا ہے

پروفیسر سعود عالم قاسمی نے مزید بتایا یہ آم شمار وہ ہیں جن میں لکھنے والے علی گڑھ کے طلباء، اولڈ بوائز بھی ہے، جس میں ریسرچ اسکالر بھی ہیں، پروفیسر بھی ہے اور باہر کی دنیا کے اردو میں لکھنے والے معتبر قلم کار حضرات ہے جن کا تعلق صرف ہندوستان سے نہیں ہے۔ کینیڈا سے بھی ہیں، برطانیہ سے بھی ہیں، پاکستان سے بھی ہیں۔

تہذیب الاخلاق ہر سال ایک نمبر شائع کرتا ہے خاص طور سے وہ سرسید نمبر ہے جو اکتوبر میں شائع ہوتا ہے لیکن ابھی 28جنوری کو ایڈیٹوریل بورڈ اور سرسید مشن سے جو جڑے ہوئے اساتذہ ہیں اس یونیورسٹی میں ان کی ایک میٹنگ ہوئی انھوں نے یہ طے کیا کہ 1870 کے بعد یہ یونیورسٹی بنی 1920 دسمبر میں ایکٹ منظور ہوا اسی کے اوپر ایک نمبر شائع کرنا چاہیے جو اس کی سوسالہ پر مشتمل ہو۔

یہ نمبر یا تو اکتوبر میں شائع ہو گا جو سرسیداحمدخان کی پیدائش ہے تقریبات کے موقع سے یا دسمبر میں شائع ہو گا جب یونیورسٹی کا ایکٹ منظور ہوا تھا ان دو مہینوں کے اندر یہ کبھی بھی شائع ہو سکتا ہے۔

۱۔ بائٹ۔۔۔۔پروفیسر سعود عالم قاسمی۔۔۔۔۔۔مدیر تہذیب الاخلاق ماہ نامہ رسالہ۔




Suhail Ahmad
7206466
9760108621
Last Updated : Feb 28, 2020, 1:14 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.