ETV Bharat / bharat

'شہریت ترمیمی بل بھارتی آئین کے خلاف'

شہریت ترمیمی بل پر آج آسام ہاؤس میں شمالی مشرقی ریاستوں کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ امت شاہ کی میٹنگ منعقد کی گئی جہاں اے آئی یو ڈی ایف نے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیا۔

author img

By

Published : Nov 30, 2019, 11:20 PM IST

اے آئی یو ڈی ایف نے شہریت ترمیمی بل کو مذہبی جانبداری والا بل بتاتے ہوئے امت شاہ کے سامنے اس کی مخالفت کی۔

میٹنگ کے بعد اے آئی یو ڈی ایف کے جنرل سکریٹری امین الاسلام نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں میٹنگ میں امت شاہ کی مخالفت کے تعلق سے تفصیلی معلومات دی۔


انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے متضاد وعدے کر کے تمام سیاسی پارٹیوں کو منا لیا، تاہم ہمارا یہی کہنا تھا کہ یہ بل آئین کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ' اس قانون کی منظوری کے بعد بھارت کا قد چھوٹا ہوگا، کیوں کہ کسی اور ملک میں مذہب یا شہریت کی بنیاد پر بھارتیوں کو واپس بھیجنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔

مجوزہ شہریت بل پر غور خوض کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے بلائی گئی شمال مشرق کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی، وزرائے داخلہ، سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور مختلف گروپوں کے ذمہ داروں کی میٹنگ میں اے آ ئی یو ڈی ایف نے شہریت ترمیمی بل کی پر زور مخالفت کی۔

آسام ہاؤس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے ایک میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں شمالی مشرق کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی،وزرائے داخلہ، سیاسی پارٹیوں کے رہنما اور مختلف گروپوں کے ذمہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ شہریت ترمیمی بل پر بات کرکے سب کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
مولانا بد رالدین اجمل کی قیادت والی آسام کی ایک اہم سیاسی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)کی جانب سے پارٹی کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ امین الاسلام نے میٹنگ میں شرکت کرکے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اس طرح کے بل کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ یہ بھارت کے آئین کی مختلف دفعات کے خلاف ہے۔ اس بل کی بنیاد ہی مذہبی تعصب پر ہے۔

انہوں نے وزیر داخلہ سے کہا کہ آپ جو بل لانا چاہ رہے ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والا ہے جوکہ آئین کے خلاف ہے۔ ایک طرف آپ سنہ 2014 تک باہر سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی وکالت کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کی پارٹی کے لیڈران 1951کو بنیاد بنا کر این آر سی بنانے کی بات کر رہی ہیں۔ یعنی این آر سی کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہی آئے گا جو کہ سراسر نا انصافی ہے'۔

مسٹر امین الاسلام نے کہاکہ بھارت کے آئین کی بنیاد جمہوریت اور سیکولرزم پر ہے مگر یہ بل بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر یہ شہریت ترمیمی بل قانونی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آسام کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تیار ہونے والا این آر سی جس کے لیے 1600 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور تقریبا پچپن ہزار لوگوں نے جس کے لیے پانچ برسوں تک کام کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جا ئے گی کیونکہ اس سے باہر رہنے والے تمام غیر مسلموں کو شہریت مل جائے اور صرف مسلمانوں کو ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ کئی برسوں تک چلنے والی تحریک کے بعد آسام میں امن و امان قائم کرنے کے لیے 1985 میں آسام اکارڈ بنا تھا جس کے تحت 24 مارچ 1971 تک آنے والے لوگوں کو بھارتی شہری تسلیم کیا جائے گا جبکہ اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی مانا جائے مگر جب یہ شہریت ترمیمی بل پاس ہوجانے کی صورت میں آسام اکورڈ کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے 2014 تک آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دے دی جائے گی۔
چوتھی بات یہ کہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد آسام کی تہذیب اور شناخت ختم ہو جائے گی کیونکہ باہر سے جو لوگ آئیں گے وہ آسامی نہیں ہوں گے اور وہ آسام میں اکثریت میں ہو جائیں گے جس سے آسام کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوگا حالانکہ آسام کے لوگوں نے اپنی تہذیب کے تحفظ کے لیے طویل مدت تک لڑائی لڑی ہے۔

پانچویں بات یہ کہ آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ نارتھ ایسٹ کی جن ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت خصوصی درجہ ملا ہوا ہے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا، اسی طرح ٹرائیبل کے حقوق کی بھی رعایت کی جائے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ اس بل سے صرف اور صرف مسلمانوں اور آسام کے لوگوں کو نقصان ہونے والا ہے۔

اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اس بل کے ذریعہ اُ ن کو شہریت دینا چاہ رہے ہیں جن کے ساتھ پڑوس کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و تشدد ہوا ہے، کسی بھارتی کو ٹارگیٹ کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس پر ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ تقسیمِ ملک کے وقت کی بات اگر کی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور بڑی تعداد میں غیر مسلم یہاں آگئے تھے جو آسام بنگال، تریپورہ وغیرہ میں آباد ہو گئے مگر اب بھی ایسا ہو رہا ہے یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے۔ اور اگر فرض کر لیں کہ ایسا ہو رہا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے بنگلہ دیش کی سرکار سے اس بارے میں کتنی بار بات کی ہے؟
مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر میٹنگ میں شرکت کے بعد ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکزی حکومت اس بل کو کسی بھی حال میں پارلیمنٹ سے پاس کروانا چاہ رہی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ بھارتی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن ہوگا۔
انہوں نے کہا پورے آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں ہر روز اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے مگر سرکار اپنی ضد پر اڑی ہے جو اس ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی نے پہلے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور اب بھی پارلیمنٹ، اسمبلی،اور سڑکوں پر اس کی پر زور مخالفت کریگی او راگر پھر بھی سرکار نے اسے قانونی شکل دے دی تو ہم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے'۔

اے آئی یو ڈی ایف نے شہریت ترمیمی بل کو مذہبی جانبداری والا بل بتاتے ہوئے امت شاہ کے سامنے اس کی مخالفت کی۔

میٹنگ کے بعد اے آئی یو ڈی ایف کے جنرل سکریٹری امین الاسلام نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں میٹنگ میں امت شاہ کی مخالفت کے تعلق سے تفصیلی معلومات دی۔


انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے متضاد وعدے کر کے تمام سیاسی پارٹیوں کو منا لیا، تاہم ہمارا یہی کہنا تھا کہ یہ بل آئین کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ' اس قانون کی منظوری کے بعد بھارت کا قد چھوٹا ہوگا، کیوں کہ کسی اور ملک میں مذہب یا شہریت کی بنیاد پر بھارتیوں کو واپس بھیجنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔

مجوزہ شہریت بل پر غور خوض کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے بلائی گئی شمال مشرق کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی، وزرائے داخلہ، سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور مختلف گروپوں کے ذمہ داروں کی میٹنگ میں اے آ ئی یو ڈی ایف نے شہریت ترمیمی بل کی پر زور مخالفت کی۔

آسام ہاؤس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے ایک میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں شمالی مشرق کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی،وزرائے داخلہ، سیاسی پارٹیوں کے رہنما اور مختلف گروپوں کے ذمہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ شہریت ترمیمی بل پر بات کرکے سب کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
مولانا بد رالدین اجمل کی قیادت والی آسام کی ایک اہم سیاسی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)کی جانب سے پارٹی کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ امین الاسلام نے میٹنگ میں شرکت کرکے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اس طرح کے بل کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ یہ بھارت کے آئین کی مختلف دفعات کے خلاف ہے۔ اس بل کی بنیاد ہی مذہبی تعصب پر ہے۔

انہوں نے وزیر داخلہ سے کہا کہ آپ جو بل لانا چاہ رہے ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والا ہے جوکہ آئین کے خلاف ہے۔ ایک طرف آپ سنہ 2014 تک باہر سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی وکالت کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کی پارٹی کے لیڈران 1951کو بنیاد بنا کر این آر سی بنانے کی بات کر رہی ہیں۔ یعنی این آر سی کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہی آئے گا جو کہ سراسر نا انصافی ہے'۔

مسٹر امین الاسلام نے کہاکہ بھارت کے آئین کی بنیاد جمہوریت اور سیکولرزم پر ہے مگر یہ بل بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر یہ شہریت ترمیمی بل قانونی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آسام کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تیار ہونے والا این آر سی جس کے لیے 1600 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور تقریبا پچپن ہزار لوگوں نے جس کے لیے پانچ برسوں تک کام کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جا ئے گی کیونکہ اس سے باہر رہنے والے تمام غیر مسلموں کو شہریت مل جائے اور صرف مسلمانوں کو ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ کئی برسوں تک چلنے والی تحریک کے بعد آسام میں امن و امان قائم کرنے کے لیے 1985 میں آسام اکارڈ بنا تھا جس کے تحت 24 مارچ 1971 تک آنے والے لوگوں کو بھارتی شہری تسلیم کیا جائے گا جبکہ اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی مانا جائے مگر جب یہ شہریت ترمیمی بل پاس ہوجانے کی صورت میں آسام اکورڈ کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے 2014 تک آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دے دی جائے گی۔
چوتھی بات یہ کہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد آسام کی تہذیب اور شناخت ختم ہو جائے گی کیونکہ باہر سے جو لوگ آئیں گے وہ آسامی نہیں ہوں گے اور وہ آسام میں اکثریت میں ہو جائیں گے جس سے آسام کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوگا حالانکہ آسام کے لوگوں نے اپنی تہذیب کے تحفظ کے لیے طویل مدت تک لڑائی لڑی ہے۔

پانچویں بات یہ کہ آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ نارتھ ایسٹ کی جن ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت خصوصی درجہ ملا ہوا ہے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا، اسی طرح ٹرائیبل کے حقوق کی بھی رعایت کی جائے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ اس بل سے صرف اور صرف مسلمانوں اور آسام کے لوگوں کو نقصان ہونے والا ہے۔

اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اس بل کے ذریعہ اُ ن کو شہریت دینا چاہ رہے ہیں جن کے ساتھ پڑوس کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و تشدد ہوا ہے، کسی بھارتی کو ٹارگیٹ کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس پر ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ تقسیمِ ملک کے وقت کی بات اگر کی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور بڑی تعداد میں غیر مسلم یہاں آگئے تھے جو آسام بنگال، تریپورہ وغیرہ میں آباد ہو گئے مگر اب بھی ایسا ہو رہا ہے یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے۔ اور اگر فرض کر لیں کہ ایسا ہو رہا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے بنگلہ دیش کی سرکار سے اس بارے میں کتنی بار بات کی ہے؟
مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر میٹنگ میں شرکت کے بعد ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکزی حکومت اس بل کو کسی بھی حال میں پارلیمنٹ سے پاس کروانا چاہ رہی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ بھارتی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن ہوگا۔
انہوں نے کہا پورے آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں ہر روز اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے مگر سرکار اپنی ضد پر اڑی ہے جو اس ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی نے پہلے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور اب بھی پارلیمنٹ، اسمبلی،اور سڑکوں پر اس کی پر زور مخالفت کریگی او راگر پھر بھی سرکار نے اسے قانونی شکل دے دی تو ہم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.