اللہ پاک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مختلف ادوار میں نبیوں کو مبعوث کیا، ساتھ ہی چار آسمانی کتابیں: توریت، زبور، انجیل اور قرآن نازل فرمایا-
قرآن پاک حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا اور اس کتاب کو قیامت تک رہنے والے انسانوں کے لیے کتاب ہدایت بنایا۔
حدیث پاک میں ہے کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا قرآن کی تلاوت کرتا جا اور جنت کی سیڑھیاں چڑھتا جا۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے، حافظ قرآن کے سر پر ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج سے بھی زیادہ روشن ہوگی۔
اسلام میں حافظ قرآن کی بڑی فضیلتیں ہیں۔
مگر آج ہم آپ کو ایک ایسے مدرسہ سے روبرو کرا رہے ہیں جہاں ساٹھ سال کے طویل عرصہ کے بعد ایک طالب علم نے حفظ قرآن کی تکمیل کی ہے جس سے مدرسہ و علاقے کے لوگوں میں خوشی و مسرت کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔
مدرسہ اسلامیہ پہلے مکتب کی شکل میں تھا، پھر سنہ 1948 سے مدرسہ بورڈ کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔
اس مدرسے کے قیام اور کارکردگی میں مدرسہ کے بانی مدرس مولانا سلیمان، سکریٹری محی الدین، ایڈووکیٹ محمد طیب کے علاوہ سابق رکن پارلیمان محمد حلیم الدین اور سابق رکن اسمبلی محمد یاسین و دیگر مقامی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس ادارے کے فیض یافتہ دینی، تعلیمی، سماجی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے، اپنے وقت کے نامور مصنف و مورخ مولانا عیسٰی فرتاب، مولانا شفیع کمالی اور عہد حاضر میں آئی اے ایس احسن رضا اسی ادارہ سے فارغ التحصیل ہیں۔
ایک وقت تھا جب اس ادارے سے بہار کے پورنیہ، سہرسہ، مدھے پورہ، کٹیہار، دربھنگہ اضلاع تک کے طالب علم یہاں آکر علم کی پیاس بجھاتے تھے۔
اس ادارے میں دینی تعلیم کے ساتھ سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہاں شعبہ حفظ کے ساتھ عربی زبان کی تعلیم کا بھی نظم ہے، مگر اس ادارے کی بدقسمتی کہی جائے کہ ساٹھ سال قبل اس ادارے سے جس طالب علم نے حفظ قرآن مکمل کیا تھا اس کے بعد حافظ قرآن بننے کا یہ سلسلہ تھم سا گیا تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ ماضی میں مدرسہ جس عروج پر تھا، تنزلی اس کا مقدر بن گیا، بچے یہاں داخلہ تو لیتے ہیں: لیکن چند پارے مکمل کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں، اس مدرسے کی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی علاقائی سیاست تھی جس کا اثر یہاں کی تعلیم پر پڑا اور یہی وجہ رہی کہ یہاں سے کوئی بچہ حافظ قرآن بن کر اب تک نہیں نکلا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب یہ ادارہ سابقہ کمی کوتاہی کو پیچھے چھوڑ کرآگے کی طرف رواں دواں ہے، جس کی وجہ سے ساٹھ سال بعد کسی بچے نے گیارہ سال کی عمر میں حفظ مکمل کیا ہے جس سے مدرسہ سمیت علاقے میں خوشی کی لہر گئی ہے۔
محمد اعظمی نامی یہ ہونہار طالب علم سِمری بختیار پور، سہرسہ کا رہنے والا ہے، محض گیارہ سال کی عمر میں تین سال کی مدت میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت پائی ہے۔
محمد اعظمی نے شعبہ حفظ کے استاذ قاری ثابت عظیم کی نگرانی میں نورانی قاعدہ سے تعلیم کا آغاز کیا تھا اور اپنی محنت و لگن سے قرآن کریم کو اپنے سینوں میں سجا لیا اور حفظ کی تکمیل کی۔
مزید پڑھیں : سرسید احمد خاں پر ملک کے مختلف حصوں میں تقریبات کا انعقاد
مدرسہ کے سکریٹری حیدر یاسین و صدر محمد زبیر عالم بتاتے ہیں کہ 'درمیان میں کچھ ناگزیر حالات پیش آئے تھے مگر اب یہ وہ دور ختم ہوا اور آج یہاں کے استاد سے لے کر طالب علم و علاقے کے لوگ سب مسرور ہیں'۔
![ارریہ : مدرسہ اسلامیہ میں 60 سال بعد پہلا حافظ قرآن](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/4932576_393_4932576_1572616158216.png)
سکریٹری حیدر یاسین نے کہا کہ 'ہماری کوشش ہے کہ ماضی میں مدرسہ کی جو عظمت تھی اسے دوبارہ بحال کیا جائے'۔