واضح رہے کہ 15 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا و طالبات مظاہرہ کر رہے تھے کہ تبھی علاقے میں تشدد بھڑک اٹھا۔ پولیس نے تشدد پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔ پتھراؤ کے بعد وہ جامعہ میں داخل ہوگئے جن کا پیچھا کرتے ہوئے پولیس کی ٹیم جامعہ یونیورسٹی کی لائبریری میں داخل ہوئی اور یہاں پڑھائی کررہے طلبا وطالبات کو زدوکوب کیا۔
حال ہی میں دہلی پولیس کی وحشیانہ پٹائی کا سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آیا تھا جس میں پولیس اہلکاروں کو صاف طور پر دیکھا گیا تھا کہ وہ طلبا کو پیٹ رہے ہیں اور طلبا کو ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں خاتون طلبا کے ساتھ دھکا مکی کرتے دیکھا گیا ہے، اب اس معاملے میں کرائم برانچ کی ٹیم ایکشن کے موڈ میں نظر آرہی ہے۔
کرائم برانچ کے ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے میں اب دہلی کرائم برانچ ان پولیس اہلکاروں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو طالب علموں کی پٹائی میں شامل تھے، اس کے لئے جنوب مشرقی ضلع پولس کی مدد لی جا رہی ہے۔
وہاں سے یہ معلومات طلب کی گئی ہے کہ 15 دسمبر کو مظاہرے کے دوران کون کون سے پولیس اہلکار ڈیوٹی پر مامور تھے اور کس کی تعیناتی کس مقام پر تھی، معلومات جمع کرنے کے بعد ہی پولیس اہلکاروں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا جائے گا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ طالب علموں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے پولیس اہلکاروں میں کون کون شامل ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ تشدد کیس میں اب تک پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ جامعہ انتظامیہ نے دہلی پولیس کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔
حال ہی میں جامعہ یونیورسٹی کی لائبریری کا جو سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آیا ہے اس سے دہلی پولیس پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں اب اس معاملے میں کرائم برانچ کی ٹیم نے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی تیاری میں ہے، اطلاعات کے مطابق ان پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے، اگرچہ سینئر پولیس افسر اس سلسلے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کررہے ہیں۔