ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس:ذرا سی چوک بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے

لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو روزانہ پنتیس ہزار کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس طرح سے چالیس روزہ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو چودہ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اب جبکہ حکومت نے اس اقتصادی نقصان کی پرواہ کئے بغیر لاک ڈاون شروع کیا ہے، تو بہتر یہی ہوگا کہ اب حالات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ہی اس لاک ڈاون کو ختم کیا جائے۔ لاک ڈاون کو مکمل طور یا اسے چند شعبوں میں ختم کرنے کے نتیجے میں وائرس کی تباہی غیر متوقع طور پر پھیل سکتی ہے۔

author img

By

Published : Apr 23, 2020, 4:07 PM IST

کورونا وائرس:ذرا سی چوک بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے
کورونا وائرس:ذرا سی چوک بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے

ملک گیر لاک ڈاون میں بعض شعبوں کو استثنیٰ دیتے ہوئے، اسے تین مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔لیکن اس بات پر ابھی اتفاق رائے قائم نہیں کیا گیا کہ کہ کیا قصبوں میں تعمیراتی کام کرنے کی اجازت بھی دی جانی چاہیے یا نہیں۔ اور یہ کہ کیا دیہات اور اسپیشل اکونامک زونز میں صنعتی سرگرمیوں کو بھی لاک ڈاون میں استثنیٰ دی جانی چاہیے یا نہیں۔

تلنگانہ جیسی ریاست، جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، ایسے میں اس شعبے کو لاک ڈاون میں مستثنیٰ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اب یہاں بڑے پیمانے پر بھیڑ بھاڑ دیکھنے کو ملے گی۔ اب اگر تعمراتی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی بھی اجازت دی جائے گی تو اس کے بعد کوئی بھی شخص سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی طرف دھیان نہیں دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو کہا جاسکتا ہے کہ اب تک سماجی دوریاں بنائے رکھنے کے لئے کی گئی تمام کوششیں اور قربانیاں رائیگاں ہوجائیں گی۔

حکومت نے زرعی سرگرمیوں کو لاک ڈاون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ کیونکہ زرعی شعبے سے منسلک لوگوں کو پہلے ہی کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے ربیع کی تیار فصل کو کاٹنے میں مشکلات حائل ہوگئی تھیں۔ اس لحاظ سے زرعی شعبے کو لاک ڈاون کی قدغن سے باہر رکھنا ایک قابل سراہنا اقدام ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ سے جڑے مزدوروں کو کام پر جانے کی اجازت دے دی گئی تو اس کے نتیجے میں تباہی پھیل سکتی ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو روزانہ پنتیس ہزار کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس طرح سے چالیس روزہ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو چودہ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اب جبکہ حکومت نے اس اقتصادی نقصان کی پرواہ کئے بغیر لاک ڈاون شروع کیا ہے، تو بہتر یہی ہوگا کہ اب حالات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ہی اس لاک ڈاون کو ختم کیا جائے۔ لاک ڈاون کو مکمل طور یا اسے چند شعبوں میں ختم کرنے کے نتیجے میں وائرس کی تباہی غیر متوقع طور پر پھیل سکتی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے وبا کو پھیلنے سے روکنے کے مقصد سے لاک ڈاون کی منظوری دی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں اس لاک ڈاون کی خلاف ورزیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ بینکوں، بازاروں اور اشیاء ضروریہ کی دکانوں پر لوگوں کو سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اگر پابندیاں یہ کہہ کر نرم کردی گئیں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کو راحت ملے گی تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں کسی بھی متاثرہ شخص کی وجہ سے یہ وبا پھیل سکتی ہے۔ حیدر آباد کی ایک خاتون جانچ کرانے کے لئے ایک پرائیویٹ اسپتال میں گئی تھی، اس عمل کے دوران اس نے مزید انیس افراد کو وائرس سے متاثر کیا۔ اسی طرح دلی میں پیزا ڈیلیور کرنے والا لڑکا بھی وائرس سے متاثر پایا گیا۔ اُس کی وجہ سے اُن 89 افراد کو قرنطینہ میں رکھنا پڑا، جو اس کے رابطے میں آگئے تھے۔

نظام الدین کے واقعہ کی وجہ سے بھی یہ وبا پھیل گئی۔ کووِڈ19 کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے دوریاں بنائے رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس کی خلاف ورزیاں کرنے کی وجہ سے کئی لوگ اس وائرس سے متاثر ہوگئے۔ مہاراشٹرا میں ہوئے تجربے کو دیکھ کر ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار بھیڑ بھاڑ ہوگئی تو پھر اس وبا کو قابو کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ممبئی اس وقت وبا سے جوجھ رہا ہے۔ یہاں فی الوقت انیس سو افراد آئیسولیشن میں ہیں اور دوسو متاثرہ افراد انتہائی نگہداشت والے وارڈز میں پڑے ہیں۔ جب بڑے شہروں کی یہ حالت ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ کیا دیہات محفوظ رہ پائیں گے؟ بعض ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ وبا کا دوسرا مرحلہ نومبر میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ایسے حالات میں بھارت کو ہرگز کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب تک صورتحال قابو میں نہیں آتی ، تب تک حکومت کو ادویات اور خوراک جیسی اہم اشیاء لوگوں کو فراہم کرنی چاہیں اور یہ بات یقینی بنائی جانی چاہیے کہ لوگ اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھیں۔

ملک گیر لاک ڈاون میں بعض شعبوں کو استثنیٰ دیتے ہوئے، اسے تین مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔لیکن اس بات پر ابھی اتفاق رائے قائم نہیں کیا گیا کہ کہ کیا قصبوں میں تعمیراتی کام کرنے کی اجازت بھی دی جانی چاہیے یا نہیں۔ اور یہ کہ کیا دیہات اور اسپیشل اکونامک زونز میں صنعتی سرگرمیوں کو بھی لاک ڈاون میں استثنیٰ دی جانی چاہیے یا نہیں۔

تلنگانہ جیسی ریاست، جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، ایسے میں اس شعبے کو لاک ڈاون میں مستثنیٰ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اب یہاں بڑے پیمانے پر بھیڑ بھاڑ دیکھنے کو ملے گی۔ اب اگر تعمراتی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی بھی اجازت دی جائے گی تو اس کے بعد کوئی بھی شخص سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی طرف دھیان نہیں دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو کہا جاسکتا ہے کہ اب تک سماجی دوریاں بنائے رکھنے کے لئے کی گئی تمام کوششیں اور قربانیاں رائیگاں ہوجائیں گی۔

حکومت نے زرعی سرگرمیوں کو لاک ڈاون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ کیونکہ زرعی شعبے سے منسلک لوگوں کو پہلے ہی کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے ربیع کی تیار فصل کو کاٹنے میں مشکلات حائل ہوگئی تھیں۔ اس لحاظ سے زرعی شعبے کو لاک ڈاون کی قدغن سے باہر رکھنا ایک قابل سراہنا اقدام ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ سے جڑے مزدوروں کو کام پر جانے کی اجازت دے دی گئی تو اس کے نتیجے میں تباہی پھیل سکتی ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو روزانہ پنتیس ہزار کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس طرح سے چالیس روزہ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کو چودہ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اب جبکہ حکومت نے اس اقتصادی نقصان کی پرواہ کئے بغیر لاک ڈاون شروع کیا ہے، تو بہتر یہی ہوگا کہ اب حالات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ہی اس لاک ڈاون کو ختم کیا جائے۔ لاک ڈاون کو مکمل طور یا اسے چند شعبوں میں ختم کرنے کے نتیجے میں وائرس کی تباہی غیر متوقع طور پر پھیل سکتی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے وبا کو پھیلنے سے روکنے کے مقصد سے لاک ڈاون کی منظوری دی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں اس لاک ڈاون کی خلاف ورزیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ بینکوں، بازاروں اور اشیاء ضروریہ کی دکانوں پر لوگوں کو سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اگر پابندیاں یہ کہہ کر نرم کردی گئیں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کو راحت ملے گی تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں کسی بھی متاثرہ شخص کی وجہ سے یہ وبا پھیل سکتی ہے۔ حیدر آباد کی ایک خاتون جانچ کرانے کے لئے ایک پرائیویٹ اسپتال میں گئی تھی، اس عمل کے دوران اس نے مزید انیس افراد کو وائرس سے متاثر کیا۔ اسی طرح دلی میں پیزا ڈیلیور کرنے والا لڑکا بھی وائرس سے متاثر پایا گیا۔ اُس کی وجہ سے اُن 89 افراد کو قرنطینہ میں رکھنا پڑا، جو اس کے رابطے میں آگئے تھے۔

نظام الدین کے واقعہ کی وجہ سے بھی یہ وبا پھیل گئی۔ کووِڈ19 کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے دوریاں بنائے رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس کی خلاف ورزیاں کرنے کی وجہ سے کئی لوگ اس وائرس سے متاثر ہوگئے۔ مہاراشٹرا میں ہوئے تجربے کو دیکھ کر ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار بھیڑ بھاڑ ہوگئی تو پھر اس وبا کو قابو کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ممبئی اس وقت وبا سے جوجھ رہا ہے۔ یہاں فی الوقت انیس سو افراد آئیسولیشن میں ہیں اور دوسو متاثرہ افراد انتہائی نگہداشت والے وارڈز میں پڑے ہیں۔ جب بڑے شہروں کی یہ حالت ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ کیا دیہات محفوظ رہ پائیں گے؟ بعض ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ وبا کا دوسرا مرحلہ نومبر میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ایسے حالات میں بھارت کو ہرگز کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب تک صورتحال قابو میں نہیں آتی ، تب تک حکومت کو ادویات اور خوراک جیسی اہم اشیاء لوگوں کو فراہم کرنی چاہیں اور یہ بات یقینی بنائی جانی چاہیے کہ لوگ اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.