اس اسمبلی حلقہ کی عوام آج بھی سیلاب اور سڑک اور دیگر مسائل سے بہت زیادہ پریشان ہیں جس کی وجہ سے مقامی باشندگان کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے۔
اس اسمبلی حلقے سے ہوکر تین ندیاں گزرتی ہیں پہلی ندی کملا دوسری کوسی اور تیسری گیہوما جسے برساتی ندی بھی کہتے ہیں، دراصل 79 گورا بورام اسمبلی حلقہ سنہ 2010 میں گھنسیام پور اسمبلی حلقہ سے الگ ہو کر بنا ہے، اب تک یہاں سے سات بار راشٹریہ جنتا دل کے ڈاکٹر مہاویر پرساد رکن اسمبلی رہے ہیں وہیں ایک مرتبہ کانگریس کے مہیندر جھا آزاد اور ایک مرتبہ انیرودھ جھا اور دو مرتبہ ڈاکٹر اظہار احمد ایک بار لوجپا کے ٹکٹ پر تو ایک بار جدیو کے ٹکٹ پر یہاں کے رکن اسمبلی رہے ہیں۔
ابھی موجودہ رکن اسمبلی جدیو پارٹی کے مدن سہنی ہیں جو ریاستی فوڈ سپلائی کے وزیر بھی ہیں یہ اسمبلی حلقہ میں کل تین بلاک کے 34 پنچایت شامل ہیں جس میں گورا بورام بلاک کے 13 پنچایت کرتپور بلاک کا 8 پنچایت اور برول بلاک کے 13 پنچایت شامل ہیں۔
اگر ہم اس اسمبلی حلقہ کے ووٹر کی بات کریں تو کُل 2 لاکھ 45ہزار کے قریب یہاں رائے دہندگان ہیں اور سب سے زیادہ رائے دہندگان مسلمان ہیں۔جن کی تعداد لگ بھگ 73 ہزار ہے، وہیں اس کے بعد لگ بھگ 36 ہزار براہمن ووٹرز ہیں، اس کے بعد یادو ووٹرز قریب 27 ہزار ہیں، اس کے بعد نونیا ہے اور دیگر دوسرے طبقہ کے ووٹرز ہیں۔
گورا بورام اسمبلی حلقہ کے کرتپور تحصیل کا اپنا دفتر آج بھی علی نگر اسمبلی حلقہ کے گھنسیام پور بلاک دفتر کے کیمپ میں چل رہا ہے تو وہیں گوارا بورام تحصیل کا دفتر کوشیسور استھان اسمبلی حلقہ کے ایک اسکول کے ہاسٹل میں چل رہا ہے۔
ایس ڈی او برول برج کشور لال کے مطابق اس اسمبلی حلقہ میں اس بار کل 349 پولنگ مراکز بنائے گئے ہیں وہیں دو لاکھ 45 ہزار کے قریب ووٹرز ہیں۔
ایک مقامی باشندہ محمد نعمان کا کہنا ہے کہ' 90 فیصد عوام نہیں جانتی کہ ان کا رکن اسمبلی کون ہے ان کو علاقے سے مطلب نہیں ہے نہ ہی علاقے کی ترقی سے۔
ایک اور مقامی شخص قیصر عالم نے کہا کہ موجودہ رکن اسمبلی مدن سہنی کو سب زیادہ ووٹ ہمارے ہی پنچایت سے ملا تھا وہیں اس علاقے کے لوگوں نے بہت خوش ہو کر انہیں فتح سے ہمکنار کرایا تھا پھر بھی یہ اسمبلی حلقہ آج بھی ترقی سے دور ہے۔
آلوک کمار یادو جو اس اسمبلی حلقہ سے انتخاب لڑنے کے خواہشمند ہیں انہوں نے کہاکہ' گورا بورام اسمبلی حلقہ کے موجودہ رکن اسمبلی نے پوری طرح اس علاقے کو درکنار کر دیا کوئی بھی ترقی کا کام نہیں ہوا ہے اگر مجھے یا کسی نوجوان کو پارٹی نے ٹکٹ دیا تو وہ انتخاب جیت کر سہی طرح سے علاقے کی ترقی کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
بہار انتخابات: زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ
علاقے کی عوام کے ردعمل سے یہی بات سامنے آئی کہ علاقے میں اب تک ترقی کا کوئی بھی کام نہیں ہو سکا ہے۔ وہیں رواں برس اسمبلی انتخابات میں علاقے کے لوگ کسی باہری شخص کو اپنا نمائندہ نہیں چنیں گے، مقامی امیدوار کو موقع دیں گے تاکہ وہ لوگوں کی پریشانی کو سمجھیں اور ترقی کرائیں۔