بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑوں یاترا کا تیسرا دن شروع ہو چکا ہے۔ اس یاترا کے ذریعہ پارٹی میں اتحاد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کا اثر ہندی بیلٹ میں نظر آ رہا ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑوں یاترا ڈھائی ماہ کا سفر مکمل کرنے کے بعد مدھیہ پردیش میں داخل ہو گئی ہے۔ اب تک کی یاترا کے دوران مدھیہ پردیش وہ پہلی ریاست ہے جہاں ہندی زبان بولی جاتی ہے۔ یہ یاترا مدھیہ پردیش کے بعد راجستھان میں داخل ہوگی۔ اتفاق سے ان دونوں ریاستوں میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور دونوں جگہ پر کانگریس اپنے عروج پر ہے۔
کنیاکماری سے شروع ہو کر کشمیر کی طرف بڑھنے والی بھارت جوڑوں یاترا کو مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ حمایت مل رہی ہے۔ مختلف کیمپوں میں بٹے ہوئے کانگریس کارکنان نے متحد ہو کر اس کا خیر مقدم کیا ہے اور یاترا کے دوران بڑی تعداد میں کارکنان کی شرکت کے لیے روٹ پلان بھی تیار کیا گیا ہے۔ برہانپور سے شروع ہوکر مدھیہ پردیش کا سفر تقریبا 16 بڑے شہروں سے ہوتا ہوا آگر مالوا پہنچے گا۔ ان میں برھانپور، کھنڈوا، کھرگون، اندور، اجین اور آگر مالوا جیسے شہر شامل ہیں۔ ریاست میں بھارت جوڑوں یاترا کو مضبوط بنانے کے لیے پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی اور عہدے داران بشمول سابق وزیراعلی کمل ناتھ، دگ وجے سنگھ، ارون یادو، اجے سنگھ راہل، نالا بچن، کانتی لال بھوریا جیسے بزرگ رہنما نے شرکت کی۔ کانگریس کے مختلف مورچے، سیل اور شاخیں بھی اس میں جوش و خروش اور سرگرم عمل ہیں۔ اس دوران مختلف کیمپوں کی بکھری ہوئی سیاست اب ایک ہوتی نظر آنے لگی ہے۔ کانگریس جس اتحاد اور اجتماعی طاقت کے لیے ایک طویل عرصے سے کوشش کر رہی تھی،وہ مقصد اس سفر کے ساتھ مکمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Priyanka And Robert Vadra راہل کی یاترا میں پرینکا اور رابرٹ بھی شامل
راہل گاندھی کی بھارت جوڑوں یاترا کو مدھیہ پردیش نے ایک نیا تحفہ دیا ہے۔ کانگریس رکن اسمبلی عارف مسعود نے آئین بچاؤ کے نام ریاست میں ایک یاترا شروع کی تھی۔ عارف مسعود تقریبا دس دن پیدل چلنے کے بعد بھوپال سے برہان پور پہنچے ۔اب ان کا سفر راہل گاندھی کی بھارت جوڑوں یاترا میں ضم ہو کر آگے بڑھ رہا ہے۔ آئندہ سال ہونے والے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ریاستی کانگریس سے وابستہ رہنما جوش و خروش کے ساتھ اس یاترا میں شامل ہو رہے ہیں۔ امید ہے کہ مدھیہ پردیس کے بعد راجستھان میں داخل ہونے کے بعد بھی یاترا کو ایسی ہی حمایت ملے گی۔ وجہ یہ ہے کہ راجستان میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں، جس کے لیے وہاں کے مقامی رہنما کافی پرجوش ہیں۔