تیز پور: آسام کے سونیت پور ضلع میں تقریباً 1,900 ہیکٹر جنگلات اور ریونیو اراضی سے "تجاوزات" کو بے دخل کرنے کی مہم بدھ کو دوسرے دن بھی جاری رہی، جس میں 12,000 لوگوں کو جو مبینہ طور پر وہاں کئی دہائیوں سے غیر قانونی طور پر مقیم تھے، کے مکانات کو منہدم کردیا گیا۔ ایک سینئر اہلکار نے اسکی جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ صبح سے ہی انتظامیہ نے بورچاپوری وائلڈ لائف سینکچری کے پانچ مقامات اور سرکاری اراضی سے بے دخلی کی مہم شروع کر دی ہے۔ آج ہم لاٹھیماری، گنیش تپو، باگے تپو، گلیرپار اور سیالی میں بے دخلی کی مہم چلا رہے ہیں۔ اب تک کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے بلکہ تمام طرح کی کارروائی پُرامن طریقہ سے انجام دی گئیں۔
واضح رہے کہ مسلح سیکورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ سونیت پور ضلع انتظامیہ نے منگل کو وسطی آسام میں دریائے برہم پترا کے جنوبی کنارے پر واقع وائلڈ لائف سینکچری اور قریبی ریونیو گائوں میں مبینہ طور پر قبضہ شدہ اراضی کو خالی کرانے کی مہم شروع کی تھی۔ متاثرہ خاندانوں میں سے کچھ نے بتایا کہ کثیر تعداد میں لوگ، خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلمان گزشتہ چند ہفتوں میں نوٹس موصول ہونے کے بعد اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بے دخلی کی مہم شروع ہوئی تو کچھ لوگ اپنے مکانات کو خالی کر رہے تھے۔ غیر قانونی آباد کاروں کو صبح سے ہی مختلف مقامات پر اپنا سامان ٹریکٹر ٹرالیوں میں لادتے ہوئے دیکھا گیا یہاں تک کہ ان کے مکانات منہدم کرنے کے لیے بلڈوزر لگائے گئے تھے۔
منہدم کئے گئے مکان سے اپنا سامان اکٹھا کرتے ہوئے فیروزہ بیگم نے الزام لگایا کہ انتظامیہ نے 20 فروری سے بے دخلی کی کارروائی شروع کرنے کا ذکر کیا تھا لیکن بغیر کسی اطلاع کے آج سے ہی اچانک بے دخلی کی کارروائی شروع کردی۔ وہیں کانگریس نے بے دخلی مہم کے لیے بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو جنگلات کے حقوق ایکٹ 2006 کے مطابق زمین الاٹ کی گئی تھیں۔
سونیت پور کے ڈپٹی کمشنر دیبا کمار مشرا نے منگل کو پی ٹی آئی کو بتایا کہ ہزاروں لوگوں نے کئی دہائیوں سے جنگل اور آس پاس کے علاقوں پر "غیر قانونی طور پر قبضہ" کر رکھا ہے اور انتظامیہ نے جمعرات تک جاری مہم کے دوران 1,892 ہیکٹر اراضی پر "تجاوزات" کو خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں سے 1,401 ہیکٹر زمین وائلڈ لائف سینکچری کے تحت آتی ہے اور باقی سرکاری زمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگل میں 1,758 خاندان رہتے تھے جن میں 6,965 افراد شامل تھے۔جبکہ سرکاری زمین پر 755 خاندان رہائش پذیر تھے، جن میں تازہ ترین سروے کے مطابق 4,645 افراد شامل تھے۔
مزید پڑھیں:۔ Illegal Bulldozer Action in Assam گوہاٹی ہائی کورٹ کی آسام حکومت کو ہدایت، غیرقانونی بلڈوزر کارروائی سے متاثر افراد کو مناسب معاوضہ بھی دیں
انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ اس علاقے کا کبھی سروے نہیں کیا گیا تھا اور یہاں کے گاؤں ناگون یا سونیت پور ضلع کے تحت آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکول، آنگن واڑی مراکز اور مساجد کو ان لوگوں نے تعمیر کئے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسکولوں اور دیگر سرکاری اداروں کو ایسے مراکز سے منسلک کر دیا جائے گا جو غیر تجاوزات والی زمین کے تحت آتے ہیں تاکہ تعلیم اور فلاحی اقدامات متاثر نہ ہوں۔ آسام پولیس اور سی آر پی ایف کے 1,700 سے زیادہ اہلکار سول انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے عملے کے ساتھ تجاوزات کے خلاف انہدامی کارروائی میں مصروف ہیں۔ ڈی سی نے کہا کہ عمارتوں کو گرانے اور زمین کو خالی کرنے کے لیے صبح سے تقریباً 100 بلڈوزر اور ٹریکٹر کام میں مصروف ہیں۔