نوئیڈا میں 22 ستمبر کو دادری میں منعقد ہونے والے مجسمے کی نقاب کشائی کے پروگرام کے ہورڈنگ میں میہر بھوج کے نام کے سامنے گرجر نہ لکھنے پر لوگوں میں ناراضگی ہے۔ گرجر سماج کے لوگوں سمیت کئی سماجی اور سیاسی تنظیموں سے وابستہ نمائندوں نے سڑک سے لےکر سوشل میڈیا تک اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
الزام ہے کہ راجپوت سماج کے کچھ لوگوں کے احتجاج کے بعد شہر میں ہورڈنگز اور پوسٹرز سے لفظ گرجر کو ہٹادیا گیا ہے۔
جس سے مشتعل لوگوں نے بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کے پتلے نذر آتش کئے اور پروگرام کے بینر بھی پھاڑدیئے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ دادری میں گرجر شہنشاہ مہر بھوج کے مجسمے کی نقاب کشائی کے بارے میں معلومات سوشل میڈیا پر دی گئی تھیں۔
دعوت دینے کے لیے جاری کردہ کارڈ پر گرجر کا لفظ استعمال کیا گیا۔
پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد دوسرے دن راجپوت سماج کے کچھ لوگوں نے احتجاج کیا اور احتجاج کی وارننگ دی۔
اس معاملے سے متعلق ایم ایل اے دھریندر سنگھ کو ایک یادداشت پیش کی گئی۔
الزام ہے کہ راجپوت سماج کے احتجاج اور انتباہ کی وجہ سے گرجر لفظ کو دادری نگر میں منعقدہ پروگرام کے ہورڈنگز سے ہٹادیا گیا۔
اس کی وجہ سے گرجر برادری کے لوگ ناراض ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے شہر میں ہورڈنگز پھاڑ دیے ہیں۔
دوسری طرف بی جے پی لیڈر خاموش ہیں۔ آل انڈیا گرجر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر یوگیندر چودھری کہتے ہیں کہ عظیم انسانوں کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔
تاریخ میں واضح ہے کہ شہنشاہ میہر بھوج کا تعلق گرجر سماج سے تھا۔ دوسری کمیونٹی کے لوگ غیر ضروری احتجاج کررہے ہیں۔
اس معاملے میں راجپوت کرنی سینا نے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ راجپوت شہنشاہ میہر بھوج پرتیہار کو گرجر سماج سے جوڑ کر دادری میں مجسمے کی نقاب کشائی کا پروگرام ہے۔
خط میں اسے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی ذات پات کے لفظ سے بت کی نقاب کشائی نہ کی جائے۔