حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت فاطمہ کے صاحبزادے امام حسین نے اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ کربلا میں اسلام اور انسانیت کو بچانے کے لئے جام شہادت نوش کی۔
اسی لئے ماہ محرم میں حضرت امام حسین کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے پوری دنیا میں عزاداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہر سال چہلم کے موقع پر جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ برس کی طرح رواں برس بھی کرونا وبا کی گائیڈ لائن کے مطابق ضلع علی گڑھ میں بھی جلوس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کیمپس میں موجود بیت الصلاۃ میں بھی مجلس کا اہتمام کیا گیا تاکہ امام حسین کے پیغام کو عام کیا جا سکے۔
حالانکہ کورونا وبا سے قبل روز عاشورہ کے چالیس ویں روز امام حسین اور کربلا کے 72 شہداء کا چہلم منانے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ مجلس میں شریک ہوتے تھے۔
عالمہ زہرا جعفری نے بتایا "کربلا واحد ایسی درسگاہ ہے جو لوگوں کو انسانیت کا سبق دیتی ہے۔
ہم یہاں حضرت امام حسین کی شہادت کو یاد کر رہے ہیں اور اس بات کا اظہار ہے کہ ہم حضرت امام حسین سے محبت کرتے ہیں۔
عالمہ زہرا نے مذید کہا "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ جو حضرت امام حسین سے محبت کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔
اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حضرت امام حسین سے محبت کرتا ہے۔ جب ہم حضرت امام حسین کی شہادت کو محسوس کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے واقعہ کربلا کیا ہے۔ کربلا ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا نام ہے۔
مولانا زاہد لکھنوی نے کہا "اسلام کا پیغام اور معنی ہی سلامتی کے ہے۔
اسلام نے اخلاقیات کو بہتر بنانے کا پیغام دیا ہے اسلام میں انسان کے حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
لیکن کربلا کی سر زمیں پر امام حسین کے مقابلے چند افراد ایسے تھے جو ظاہری طور پر انسان ضرور تھے لیکن ان کے اندر انسانیت کا دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین نواسہ رسول اپنے بچے کے لئے پانی طلب کرتے رہے لیکن ان جانوروں بلکہ جانور نما انسانوں نے بچے کو پانی تک دینا بہتر نا سمجھا بلکہ ان کو شہید کر دیا۔
اسی غم کو یاد کرنے کے لئے ہم مسلسل اس غم کو مناتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ گزشتہ چودہ سو برسوں سے اسلام دہشت گردی کے خلاف ہیں اور آواز بلند کر رہے ہیں۔