اے ایم یو کے ریٹائرڈ پروفیسر حامد علی نے خصوصی گفتگو میں اے ایم یو گزٹ کے خصوصی شمارہ کو ایک عجیب وغریب نمونہ بتایا اور دوبارہ لکھ کر شائع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جو روایات ہیں اس کو توڑنےکی کیوں ضرورت پڑی؟
واضح رہے کہ کچھ روز قبل اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق نائب صدر حمزہ سفیان نے اعتراض کرتے ہوئے یونیورسٹی گزٹ کو "حکومت کا گزٹ" بتایا جو حکومت کی جانب سے نکلا ہے اور کہا تھا کہ "یونیورسٹی میں جتنی بھی چیزیں سر سید احمد خان نے ملت کے لئے بنائی تھی ان کو انہوں نے حکومت کی چوکھٹ پے جا کر بیج دیا"۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تاریخی ماہنامہ 'یونیورسٹی گزٹ' کو خود بانی درس گاہ سر سید احمد خان نے 30 مارچ 1866 کو اردو اور انگریزی زبان میں جاری کیا تھا۔ جس میں ادارے سے متعلق اہم دستاویزات شائع ہوئیں۔
اردو اور انگریزی زبان میں اے ایم یو شعبہ رابطہ عامہ سے شائع ہونے والا تاریخی 'یونیورسٹی گزٹ' اس بار سر سید اکیڈمی نے شائع کیا، جس کی ادارتی کمیٹی کو بھی تبدیل کردیا گیا۔
خصوصی صد سالہ شمارہ آٹھ صفحات کو چھوڑکر انگریزی زبان میں شائع کیا گیا۔ اس سے قبل یونیورسٹی گزٹ اردو اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔
'یونیورسٹی گزٹ' یونیورسٹی کا آفیشیل ترجمان ہے جس میں یونیورسٹی کی تمام سرگرمیاں شامل کی جاتی ہیں۔ رواں برس 9 جولائی کو شائع صد سالہ خصوصی شمارہ میں ان شخصیات کے لیکچرز اور تقریریں شامل ہیں جن کا اہتمام سر سید میموریل لیکچر سیریز کے ایک حصہ کے طور پر کیا گیا۔ اس میں یونیورسٹی کی اہم عمارتوں اور دیگر یادگاروں کی جھلکیاں بھی ہیں۔
واضح رہے کہ 22 دسمبر 2020 کو اے ایم یو کی صد سالہ تقریب کے موقع پر ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے آن لائن شرکت کی تھی، جس میں سابق وزیر تعلیم رمیش پوکھریال بھی موجود تھے۔ جس کے بعد 9 جولائی 2021 کو اے ایم یو کی صد سالہ تقریبات کی یادگار کے طور پر اے ایم یو گزٹ کے خصوصی شمارہ کا اجراء خود وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیا تھا جو آج کل یونیورسٹی کیمپس اور سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث ہے۔
اے ایم یو کے ریٹائرڈ پروفیسر حامد علی نے خصوصی گفتگو میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا "یونیورسٹی کے پاس بہت بڑا موقع تھا لیکن میں نے دیکھا جس طرح سے سر سید اور اے ایم یو کا کوریج کرنا چاہیے تھا وہ اس میں نہ کے برابر ہے اور سب سے بڑا تو افسوس مجھے یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ فرنٹ پیج پر، جس کی صد سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں، سرسید احمد خان نے جس گزٹ کو شروع کیا ان کی تصویر اس پر نہیں ہے یہ مجھے بہت ہی عجیب دکھائی دیا یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے"۔
پروفیسر حامد علی نے مزید کہا "کہ میں یہ سمجھتا ہوں یونیورسٹی کے پاس یہ بہت اچھا موقع تھا۔ یونیورسٹی گزٹ میں سرسید احمد خان کی زیادہ سے زیادہ تصاویر اور ان کے بارے میں شائع کرنا تھا اور پورے ملک میں جتنی بھی لائبریری ہیں جتنی بھی جگہ ہو سکتا تھا سب جگہ ایک ایک گزٹ کی کاپی بھیجنی چاہیے تھی تاکہ لوگوں کو سر سید احمد خاں کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی، یہ بہت بڑی کمی ہوئی ہے، یونیورسٹی کے صد سالہ خصوصی گزٹ میں"۔
یونیورسٹی گزٹ کے ایڈیٹوریل بورڈ کو تبدیل کرنے سے متعلق پروفیسر حامد علی نے کہا "میں یونیورسٹی میں 39 سال رہا۔ 2019 میں ریٹائرڈ ہوا ہوں۔ مجھے موجودہ ایڈیٹوریل بورڈ میں کوئی بھی پہچان میں نہیں آتا صرف دو پروفیسر ہیں جن کو میں جانتا ہوں باقی ایڈیٹوریل بورڈ میں کون لوگ ہیں انہوں نے ایسا کیا کام کیا کہ ان کا نام ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کیا گئے"۔
پروفیسر حامد علی نے مزید کہا "میرے خیال سے اس گزٹ کو دوبارہ لکھنا چاہئے، دوبارہ شروع کرنا چاہئے مجھے نہیں لگتا کہ اس میں بہت زیادہ رقم کا خرچہ آ رہا ہوگا"۔
پروفیسر حامد علی نے اردو سے متعلق کہا کہ میں ہمیشہ سے دیکھتا آ رہا ہوں "یہ یونیورسٹی گزٹ انگریزی اور اردو زبان دونوں میں ہوتا تھا جو انگریزی میں شائع ہوتا تھا وہ زیادہ تر اردو میں بھی شائع ہوتا تھا تاکہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ اردو میں اس کو پڑھ سکیں اور سرسید احمد خان کا بھی یہی مشن تھا لیکن اب میں اس کو دیکھ رہا ہوں کہ ایک "عجیب و غریب ٹائپ کا نمونہ" آیا ہے جس پر آگے بھی اور پیچھے بھی انگریزی ہے بس بیچ میں کچھ صفحات اردو میں دیے گئے ہیں یہ اچھا نہیں ہیں جو روایت ہیں اس کو کیوں توڑنے کی ضرورت پڑی؟"۔
مزید پڑھیں:
اے ایم یو 'صد سالہ خصوصی شمارہ' پر اعتراض کیوں؟
اے ایم یو کے موجودہ و ریٹائرڈ تدریسی ملازمین، اے ایم یو طلبہ اور طلبہ رہنما اس پر اعتراض جتارہے ہیں۔ ان کے مطابق صد سالہ خصوصی شمارہ 'یونیورسٹی گزٹ' پر متعدد اعتراضات ہیں۔ اے ایم یو صد سالہ تقریب دسمبر 2020 کے بجائے جولائی 2021 میں صد سالہ خصوصی شمارے کا اجراء کیوں کیا گیا، وزیر اعظم کی 7 اور سابق وزیر تعلیم کی 5 تصاویر کو 'یونیورسٹی گزٹ' میں لگانا، گزٹ کی روایات کے برخلاف ہے۔ اردو زبان کو محض چند صفحات تک محدود کیا گیا ہے جب کہ 8 صفحات کو چھوڑ کر یونیورسٹی گزٹ کو انگریزی زبان میں شائع کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ادارتی کمیٹی کو تبدیل کرنا، یونیورسٹی کی تعمیر میں تعاون کرنے والی اہم شخصیت کا تذکرہ نہ کرنا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔