کسی بھی تعلیمی ادارے کا لوگو اس کے لئے اس کی پہچان اور شان ہوتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) ایک تاریخی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی ہے جس کا قیام برطانوی حکومت کے دور میں 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی شکل میں ہوا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی کے 'لوگو' کے مرکز میں کھجور کا درخت، ایک جانب چاند اور دوسری جانب ملکہ وکٹوریہ کے تاج کے ساتھ دائرے میں انگریزی زبان میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج لکھا ہوا تھا۔
اے ایم یو کے سابق پی آر او اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اردو اکیڈمی ڈاکٹر راحت ابرار نے بتایا کہ سر سید احمد خان نے مدینہ منورہ سے دو کھجور کے درخت منگوائے تھے جن کو انہوں نے علی گڑھ میں لگایا، جو آج ہماری علامت ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ سینکڑوں سال تک زندہ رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان کا کہنا تھا کہ آج ہم جس تعلیم کا چھوٹا سا پودا لگارہے ہیں، وہ بھی آنے والے وقت میں کھجور کے درخت کی طرح ایک عظیم درخت بنے گا جس کی شاخیں ملک کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلیں گی۔
راحت ابرار نے بتایا کہ سرسید احمد خان نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد برطانوی حکومت کے دور میں رکھی گئی تھی، اس وقت سکوں، عمارتوں اور دیگر مقامات پر ملکہ وکٹوریہ کا تاج ہوتا تھا، تو ظاہر ہے کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے 'لوگو' کے مرکز میں بھی کھجور کے درخت کے ساتھ ایک جانب چاند اور دوسری جانب ملکہ وکٹوریہ کا تاج موجود تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا اور ملک کی آزادی کے بعد 1951 میں جب اے ایم یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین تھے تو ایک بار پھر ضرورت محسوس کی گئی کہ اے ایم یو کے 'لوگو' کو تبدیل کیا جائے کیوں کہ برطانوی حکومت ختم ہوچکی تھی جس کی وجہ سے لوگو میں آخری مرتبہ تبدیلی کی گئی، جس میں ملکہ وکٹوریہ کا تاج ہٹاکر کتاب کو شامل کیا گیا۔ "علم الانسان مالم یعلم" جس کے معنی "جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا" اور اردو زبان میں دائرے میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ لکھا گیا جو آج بھی موجود ہے۔