ETV Bharat / bharat

چرچ نے 'نارکوٹکس جہاد' کا الزام لگاکر کیرالہ کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا - Mar Joseph Kallarangat۔

کوٹیم کے مارتھ مریم پلگرم چرچ سے خطاب کررہے تھے۔اس دوران انہوں نے 'لو جہاد' کے بڑھتے معاملات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس بیان نے اب کیرالہ میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دے دیا ہے اور اب سوشل میڈیا میں بشپ کی حمایت اور مخالفت میں لوگوں کے گروہ بن گئے ہیں۔

چرچ نے 'نارکوٹکس جہاد' کا الزام لگا کر کیرالہ کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا
چرچ نے 'نارکوٹکس جہاد' کا الزام لگا کر کیرالہ کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا
author img

By

Published : Sep 14, 2021, 3:51 PM IST

Updated : Sep 14, 2021, 5:11 PM IST

گزشتہ کئی برسوں سے بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے 'لو جہاد' کے الزامات لگائے جانے کے بعد اب کیرالہ کا چرچ بھی اس طرح کی بیان بازی میں شامل ہوگیا ہے۔ اس بار ایک نئے لفظ 'نارکوٹکس جہاد' (نشے کا جہاد) کے ذریعہ الزام تراشی کا کام کیا جارہا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک جانب جہاں عالمی کیتھولک لیڈر پوپ فرانسس عالمی سطح پر تمام مذہب میں بھائی چارہ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں وہیں ان کے شاگرد بشپ مار جوزف کلرنگاٹ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر انگلیاں اٹھارہے ہیں اور الزام عائد کررہے ہیں کہ عیسائی نوجوان و خواتین کے مذہب کو تبدیل کرنے سے پہلے انہیں منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے۔

ان کا یہ متنازعہ بیان دو دن قبل اس وقت سامنے آیا جب وہ کوٹیم کے مارتھ مریم پلگرم چرچ سے خطاب کررہے تھے۔ اس دوران انہوں نے 'لو جہاد' کے بڑھتے معاملات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس بیان نے اب کیرالہ میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دے دیا ہے اور اب سوشل میڈیا میں بشپ کی حمایت اور مخالفت میں لوگوں کے گروہ بن گئے ہیں۔

وہیں کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنارائی وجین سے جب اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ 'نارکوٹکس جہاد' جیسے لفظ کو پہلی بار سن رہے ہیں۔ انہوں نے بشپ کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'نشہ آور چیزوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا ہے اور یہ غیر معاشرتی سرگرمی ہے۔ کوئی بھی مذہب منشیات کے استعمال کی پیروی نہیں کرتا۔

اب کئی مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے درمیان یہ بحث شروع ہوچکی ہے۔ بہت سے لوگوں نے بشپ کے خیالات کو ایک اشتعال انگیز بیان قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایسے بیان کو ریاست میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والا بتایا ہے۔

بشپ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'ایک خاص مذہب کی جانب سے عیسائی نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کو مقبول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ دعویٰ کرنا کہ کوئی لو جہاد جیسی چیز نہیں ہے تو یہ اپنے اطراف میں موجود چیزوں پر پردہ ڈالنے کے برابر ہے کیونکہ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ لو جہاد کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں'۔

وہیں حزب مخالف لیڈر ڈی ستیشن نے بشپ کے دعوؤں کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے اور سنگھ پریوار کے کارکنوں پر آگ میں گھی ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جو اپنے پروپیگنڈہ کے لیے پوسٹ کرتے ہیں اور دو مذاہب کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہیں بی جے پی کی جانب سے اس طرح کے بیان کی حمایت کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن نے بشپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد میں یہ بات کہہ رہے ہیں اور ان الزامات کی مکمل جانچ ہونی چاہیے۔ کیرالہ بی جے پی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط بھی بھیجا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ ان الزامات کی تحقیق کرنے کا حکم صادر کیا جائے۔

وہیں کئی عیسائی مذہب کے سربراہ بھی پال بشپ کی حمایت میں سامنے آئےہیں۔ پالا اسسٹنٹ بشپ جیکب موریکن سب سے پہلے بشپ جوزف کلرنگاٹ کی حمایت میں سامنے آئے اور کہا کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور سماج دشمن سرگرمیوں کو پھیلانے کے لیے جس طرح کی سرگرمیوں کو انجام دیا جارہا ہے اس کو سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ایرنگالاکوڈا اور چنگناسری ڈیوسیس بھی پال بشپ کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔

اس بیان پر اسلامی تنظیموں کا ردعمل

یہ بیان دینے کے ایک دن بعد مسلم تنظمیوں کی جانب سے ردعمل ظاہر کیے جارہے ہیں۔ کیرالہ کی سمستا، سپرباتھم نے اس معاملہ میں ایک اداریہ شائع کیا جس کا عنوان تھا'زہر تھوکنے والی زبانیں اور خاموش دماغ'۔ اس میں بشپ پر اسلام مخالف جذبات پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی تنظیموں نے بھی متنازعہ بیان کے خلاف بات کہی ہے۔ کوٹیم کے ایرٹوپیٹا میں بشپ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

ایک عیسائی روزنامہ دیپیکا میں بشپ کے دعوؤں کی حمایت کرتے ہوئے ایک اداریہ بھی شائع کیا گیا۔ دیپیکا کے اداریے کی سرخی تھی کہ 'کیا کسی کو سچائی کے بارے میں جاننے کا حق نہیں ہے'۔ اس اداریہ میں دعویٰ کیا گیا کہ بشپ کی جانب سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ثبوت موجود ہیں اور پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

کیرالا میں عیسائی اور مسلمان دو بڑے ووٹ بینک ہیں۔ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف دونوں کو ان دونوں گروپ سے کافی سپورٹ ملتا ہے۔ ایسے میں اگر ان سیاسی جماعتوں کا ان دونوں گروپ کے حوالے سے کوئی بھی سیاسی بیان سامنے آتا ہے تو اس کا اثر انتخابی نتائج میں واضح طور پر دیکھنے کو ملے گا۔ تاہم دونوں جماعتیں احتیاط برت رہی ہیں اور دونوں برادریوں کو ایک ساتھ لے کر چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ وی ڈی ستیشن اور کانگریس سے پی ٹی تھامس بشپ کے اس تبصرے کے خلاف سب سے پہلے سامنے آئے تھے۔ تاہم جب یہ تنازعہ دو دن پرانا ہوگیا ہے تو دونوں ہی بیانات دینے سے بچ رہے ہیں۔ وی ڈی ستیشن نے اس تنازعہ کو موجود حکومت کے خلاف اپناتے ہوئے اس مسئلے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یو ڈی ایف کے دو بڑے حلقوں کیرالہ کانگریس (جیکب) اور کیرالہ کانگریس (جوزف) دھڑوں نے بشپ کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج غیر ضروری ہے اور ہمارا ہے مطالبہ کیا کہ بشپ کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

مسلم لیگ نے ابھی تک اس تنازعہ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ایل ڈی ایف بھی احتیاط برتے ہوئے نظر آرہی ہے، حالانکہ انہوں نے کہا ہے کہ بشپ کے اس بیان سے ریاست میں مذہبی ہم آہنگی خراب ہوسکتی ہے۔

بی جے پی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو بخوبی جانتی ہے کہ اس طرح کے بیان کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ بی جے پی کے لیڈر پی ایس سریدھرن پلائی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشپ کی حمایت کی ہے اور تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے رہنما پالا میں بشپ کے گھر بھی گئے اور مکمل حمایت دینے کا اعتماد دلایا۔ سری دھرن پلائی نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔

بہر حال اس بیان نے یقینی طور پر دو مذہبی گروہوں میں ایک واضح دوری پیدا کردی ہے اور اب یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیرالہ میں پرامن رہنے والے رہائشیوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب عیسائیوں کے سب سے بڑے رہنما ہنگری میں اپنی مذہبی تقریر کے بعد ویٹیکن واپس لوٹے تھے تب انہوں نے عالمگیر بھائی چارے کا پیغام دیا تھا۔ لیکن کیرالہ لو جہاد اور نارکوٹکس جہاد پر بحث کرکے دنیا کے دو بڑے مذہبی گروپوں میں کشیدگی پیدا کرنے میں مصروف ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے 'لو جہاد' کے الزامات لگائے جانے کے بعد اب کیرالہ کا چرچ بھی اس طرح کی بیان بازی میں شامل ہوگیا ہے۔ اس بار ایک نئے لفظ 'نارکوٹکس جہاد' (نشے کا جہاد) کے ذریعہ الزام تراشی کا کام کیا جارہا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک جانب جہاں عالمی کیتھولک لیڈر پوپ فرانسس عالمی سطح پر تمام مذہب میں بھائی چارہ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں وہیں ان کے شاگرد بشپ مار جوزف کلرنگاٹ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر انگلیاں اٹھارہے ہیں اور الزام عائد کررہے ہیں کہ عیسائی نوجوان و خواتین کے مذہب کو تبدیل کرنے سے پہلے انہیں منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے۔

ان کا یہ متنازعہ بیان دو دن قبل اس وقت سامنے آیا جب وہ کوٹیم کے مارتھ مریم پلگرم چرچ سے خطاب کررہے تھے۔ اس دوران انہوں نے 'لو جہاد' کے بڑھتے معاملات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس بیان نے اب کیرالہ میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دے دیا ہے اور اب سوشل میڈیا میں بشپ کی حمایت اور مخالفت میں لوگوں کے گروہ بن گئے ہیں۔

وہیں کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنارائی وجین سے جب اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ 'نارکوٹکس جہاد' جیسے لفظ کو پہلی بار سن رہے ہیں۔ انہوں نے بشپ کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'نشہ آور چیزوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا ہے اور یہ غیر معاشرتی سرگرمی ہے۔ کوئی بھی مذہب منشیات کے استعمال کی پیروی نہیں کرتا۔

اب کئی مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے درمیان یہ بحث شروع ہوچکی ہے۔ بہت سے لوگوں نے بشپ کے خیالات کو ایک اشتعال انگیز بیان قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایسے بیان کو ریاست میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والا بتایا ہے۔

بشپ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'ایک خاص مذہب کی جانب سے عیسائی نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کو مقبول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ دعویٰ کرنا کہ کوئی لو جہاد جیسی چیز نہیں ہے تو یہ اپنے اطراف میں موجود چیزوں پر پردہ ڈالنے کے برابر ہے کیونکہ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ لو جہاد کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں'۔

وہیں حزب مخالف لیڈر ڈی ستیشن نے بشپ کے دعوؤں کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے اور سنگھ پریوار کے کارکنوں پر آگ میں گھی ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جو اپنے پروپیگنڈہ کے لیے پوسٹ کرتے ہیں اور دو مذاہب کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہیں بی جے پی کی جانب سے اس طرح کے بیان کی حمایت کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن نے بشپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد میں یہ بات کہہ رہے ہیں اور ان الزامات کی مکمل جانچ ہونی چاہیے۔ کیرالہ بی جے پی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط بھی بھیجا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ ان الزامات کی تحقیق کرنے کا حکم صادر کیا جائے۔

وہیں کئی عیسائی مذہب کے سربراہ بھی پال بشپ کی حمایت میں سامنے آئےہیں۔ پالا اسسٹنٹ بشپ جیکب موریکن سب سے پہلے بشپ جوزف کلرنگاٹ کی حمایت میں سامنے آئے اور کہا کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور سماج دشمن سرگرمیوں کو پھیلانے کے لیے جس طرح کی سرگرمیوں کو انجام دیا جارہا ہے اس کو سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ایرنگالاکوڈا اور چنگناسری ڈیوسیس بھی پال بشپ کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔

اس بیان پر اسلامی تنظیموں کا ردعمل

یہ بیان دینے کے ایک دن بعد مسلم تنظمیوں کی جانب سے ردعمل ظاہر کیے جارہے ہیں۔ کیرالہ کی سمستا، سپرباتھم نے اس معاملہ میں ایک اداریہ شائع کیا جس کا عنوان تھا'زہر تھوکنے والی زبانیں اور خاموش دماغ'۔ اس میں بشپ پر اسلام مخالف جذبات پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی تنظیموں نے بھی متنازعہ بیان کے خلاف بات کہی ہے۔ کوٹیم کے ایرٹوپیٹا میں بشپ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

ایک عیسائی روزنامہ دیپیکا میں بشپ کے دعوؤں کی حمایت کرتے ہوئے ایک اداریہ بھی شائع کیا گیا۔ دیپیکا کے اداریے کی سرخی تھی کہ 'کیا کسی کو سچائی کے بارے میں جاننے کا حق نہیں ہے'۔ اس اداریہ میں دعویٰ کیا گیا کہ بشپ کی جانب سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ثبوت موجود ہیں اور پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

کیرالا میں عیسائی اور مسلمان دو بڑے ووٹ بینک ہیں۔ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف دونوں کو ان دونوں گروپ سے کافی سپورٹ ملتا ہے۔ ایسے میں اگر ان سیاسی جماعتوں کا ان دونوں گروپ کے حوالے سے کوئی بھی سیاسی بیان سامنے آتا ہے تو اس کا اثر انتخابی نتائج میں واضح طور پر دیکھنے کو ملے گا۔ تاہم دونوں جماعتیں احتیاط برت رہی ہیں اور دونوں برادریوں کو ایک ساتھ لے کر چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ وی ڈی ستیشن اور کانگریس سے پی ٹی تھامس بشپ کے اس تبصرے کے خلاف سب سے پہلے سامنے آئے تھے۔ تاہم جب یہ تنازعہ دو دن پرانا ہوگیا ہے تو دونوں ہی بیانات دینے سے بچ رہے ہیں۔ وی ڈی ستیشن نے اس تنازعہ کو موجود حکومت کے خلاف اپناتے ہوئے اس مسئلے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یو ڈی ایف کے دو بڑے حلقوں کیرالہ کانگریس (جیکب) اور کیرالہ کانگریس (جوزف) دھڑوں نے بشپ کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج غیر ضروری ہے اور ہمارا ہے مطالبہ کیا کہ بشپ کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

مسلم لیگ نے ابھی تک اس تنازعہ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ایل ڈی ایف بھی احتیاط برتے ہوئے نظر آرہی ہے، حالانکہ انہوں نے کہا ہے کہ بشپ کے اس بیان سے ریاست میں مذہبی ہم آہنگی خراب ہوسکتی ہے۔

بی جے پی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو بخوبی جانتی ہے کہ اس طرح کے بیان کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ بی جے پی کے لیڈر پی ایس سریدھرن پلائی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشپ کی حمایت کی ہے اور تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے رہنما پالا میں بشپ کے گھر بھی گئے اور مکمل حمایت دینے کا اعتماد دلایا۔ سری دھرن پلائی نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔

بہر حال اس بیان نے یقینی طور پر دو مذہبی گروہوں میں ایک واضح دوری پیدا کردی ہے اور اب یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیرالہ میں پرامن رہنے والے رہائشیوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب عیسائیوں کے سب سے بڑے رہنما ہنگری میں اپنی مذہبی تقریر کے بعد ویٹیکن واپس لوٹے تھے تب انہوں نے عالمگیر بھائی چارے کا پیغام دیا تھا۔ لیکن کیرالہ لو جہاد اور نارکوٹکس جہاد پر بحث کرکے دنیا کے دو بڑے مذہبی گروپوں میں کشیدگی پیدا کرنے میں مصروف ہے۔

Last Updated : Sep 14, 2021, 5:11 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.