سرینگر: جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر میں واقع شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں آئیندہ کل راہل گاندھی ایک عظیم ریلی کے دوران عوام سے خطاب کریں گے۔ اس دوران ریلی میں کانگریس کے کئی سینیئر لیڈران شرکت کریں گے۔ وہیں دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی حصّہ لیں گے۔ یہ ریلی بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کے موقے پر منعقد کی جا رہی ہے۔
آئیے شیر کشمیر اسٹیڈیم سرینگر کی تاریخ کے صفات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سنہ 1983 میں جب عالمی چیمپیئن بھارت ویسٹ انڈیز کے خلاف اس اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ کے لئے اترا، تو شایقین پُرجوش نظر آئے لیکن بعد میں ویسٹ انڈیز کے لئے تالیاں بجاتے نظر آئے۔ ورلڈ کپ ٹرافی جیتنے اور ویسٹ انڈیز کو شکست دینے کے بعد بھارت کی ٹیم کو امید تھی کہ وادی کے اس اسٹیڈیم میں پُرجوش استقبال کیا جائےگا۔ تاہم، یہ بالکل برعکس ہو گیا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سنیل گواسکر نے اپنی کتاب "رنز اینڈ رینس" میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ "شکست کے بعد ہنگامہ آرائی سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ ناقابل یقین تھا۔ مزید یہ کہ ہجوم میں بہت سے لوگ پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، جس نے ہمیں پریشان کر دیا کیونکہ ہم پاکستان سے نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز سے کھیل رہے تھے۔'' گواسکر نے یہ بھی لکھا ہے کہ منصفانہ طور پر، یہ پورا ہجوم نہیں تھا بلکہ اس کے کچھ حصے تھے لیکن ایسا لگتا تھا کہ زیادہ تر ہجوم ہمارے خلاف تھا۔' انہوں نے لکھا ہے کہ بعد میں ایک گروپ نے بھی پچ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اس گروپ میں شبیر احمد شاہ بھی شامل تھا، جو بعد میں کشمیری علیحدگی پسند کا لیڈر بن گیا۔ اس گروپ میں شوکت بخشی بھی تھا، جو بعد میں عسکریت پسند کمانڈر بن گیا۔
اس کے علاوہ سوناور میں واقع شیر کشمیر کرکٹ گراؤنڈ شدید سیاسی خطبات کا گواہ بھی رہا ہے، چاہے وہ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجیپی ہوں یا منموہن سنگھ۔ اس کرکٹ گراؤنڈ نے ہر اس شخص کو دیکھا ہے جس نے کشمیر کی ’زخمی روحوں‘ پر مرہم لگانے کی بات کی ہے۔ یہ 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا بھی گواہ ہے، جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ انہیں کشمیر پر کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تاریخی اسٹیڈیم 2016 میں سابق وزیر اعلیٰ اور مرحوم پی ڈی پی بانی مفتی محمد سعید کے جنازے کے اجتماع کا بھی گواہ ہے۔
سنہ 2017 میں، یہ وہی کرکٹ اسٹیڈیم تھا، جہاں سے جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکز کو ایک سخت وارننگ دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ علیحدگی ایک ایسا خیال ہے جسے قتل یا جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ وہ وقت تھا جب مرکز نے وادی میں علیحدگی پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ وہیں اس بار راہل کی بھارت جوڑو یاترا کا میدان میں اختتام اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وادی میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے محسوس کی جانے والی حکومت کی پالیسیوں کی زمین پر کم سے کم مخالفت ہوتی ہے۔
کشمیر میں کشمیری سیاست دانوں میں بھارت جوڑو یاترا کے لیے جوش و خروش واضح ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یاترا کشمیری سیاسی لیڈران کے لیے خطے کے سیاسی منظر نامے میں خود کو دوبارہ قائم کرنے کا پہلا بڑا پلیٹ فارم ہے، جو کافی عرصے سے منجمد ہے۔ شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں راہل گاندھی کے خطاب سے کشمیری سیاست دانوں کو کچھ حوصلہ ملے گا، جنہیں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حملے کا سامنا ہے۔ یہ بات اس وقت ظاہر ہوئی جب سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں کے لکھن پور میں کانگریس کے لیڈر اور اپنے آنجہانی دوست راجیو گاندھی کے بیٹے کا استقبال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: Bharat Jodo Yatra بھارت جوڑو یاترا کا اثر ملک گیر سطح پر رہا، راہل گاندھی
فاروق اپنے دوست کے بیٹے کا استقبال کرنے کے لیے جموں سے لکھن پور تک بس میں سوار ہوئے۔ اس کے علاوہ، فاروق جو اس وقت سیاسی خطبہ سے زیادہ مذہبی خطبہ دیتے نظر آتے ہیں، راہل گاندھی کو پہلے ہی "شنکراچاریہ" کہہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ کے نام سے اس اسٹیڈیم کو منسوب کیا گیا ہے۔ وہیں اب شیخ کی یوم پیدائش سرکاری تعطیل نہیں ہے اور بدلے ہوئے کشمیر میں پولیس اہلکاروں کے لیے یو ٹی کے بہادری ایوارڈ پر ان کا نام نہیں ہے۔