الور میں راجستھان - ہریانہ سرحد پر کسانوں کے احتجاج کے لئے 26 جنوری کو ٹریکٹر پریڈ نکالی گئی۔ ہزاروں ٹریکٹر اور نجی گاڑیاں دہلی سے الور کے شاج پور کی طرف روانہ ہوئیں، کسان ہریانہ حکومت کی جانب سے دہلی کی طرف سے کسانوں کو مانیسر جانے کی اجازت دی گئی۔
امارام نے کہا کہ نومبر 2020 میں آج کے دن حکومت نے دہلی کی طرف بڑھنے والے کسانوں پر آنسو گیس کے شیل داغے گئے۔ اس کے بعد یوم جمہوریہ کو پھر سے دہلی میں پولیس نے کسانوں پر ڈنڈے برسائے ہیں۔
خیال رہے کہ مانیسر میں آئی ٹی آئی میں پرچم کشائی کی گئی جس کے بعد کسان قومی پرچم کو سلامی دیتے ہوئے یہاں سے لوٹ گئے۔ راستے میں ہی کسانوں اور پولیس کے مابین جھڑپ ہوگئی اور پولیس نے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے داغے اور ان پر ڈنڈے برسائے۔ جھڑپ میں ایک کسان کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔ اس واقعے کے بعد کسانوں میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
امارام نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کہا کہ کاشتکار مسلسل دو ماہ سے اپنا احتجاج پرامن طور پر درج کرا رہے ہیں۔ حکومت سے ان کی بات چیت جاری ہے۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کسانوں کو مشتعل کر رہی ہے۔ پنجاب سے ہریانہ کی طرف اور دہلی کا رخ کرنے والے ہزاروں کسانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی۔ ان پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے، ڈنڈے برسائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ یوم جمہوریہ کو مرکزی حکومت نے کسانوں پرظلم ڈھایا ہے۔ اس احتجاج میں اب تک ایک سو پچاس کسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔ آج بھی اس احتجاج میں تین کسانوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔
انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ کسانوں کو سازشی گروہ کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن حکومت یہ نہیں جانتی کہ جو کسان اقتدار دلا سکتا ہے وہی کسان حکومت کو اقتدار سے باہر کا راستہ بھی دکھا سکتا ہے۔
آج کسان یونین کا اجلاس ہوگا۔ جس میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
امارام نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ وہ جو لال قلعے یا آئی ٹی او تک پہنچے وہ کون لوگ تھے؟ پولیس کو اس کی تفتیش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی کسان وہاں پہنچ گیا ہے۔ تو حکومت کو کس قسم کا مسئلہ درپیش ہے۔ 26 جنوری کے موقع پر تمام لوگوں کو حق ہے کہ وہ انڈیا گیٹ، لال قلعہ اور دیگر تاریخی مقامات پر شہداء کو عقیدت پیش کریں۔