نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی اتحادی تنظیموں پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اس کے بعد اب تنظیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پی ایف آئی پر پابندی عائد کئے جانے کے ٹھیک ایک دن بعد پی ایف آئی اور اس کے عہدیداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ پی ایف آئی کے کئی ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے ہیں۔ ان میں پی ایف آئی کا آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ 'ایٹ دی ریٹ پی ایف آئی آفیشل' (@PFIOfficial) اور ان چیئرمین ایٹ دی ریٹ اوما سلمان (@oma_salam) سمیت کئی عہدیداروں کے ٹویٹر اکاؤنٹس شامل ہیں۔Social Media Accounts Of PFI Closed
اس کے علاوہ تنظیم کے کچھ ریاستوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس ابھی بند نہیں ہیں، لیکن کارروائی کے بعد سے مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔ معلومات کے مطابق پابندی کے بعد اب پی ایف آئی اور اس کے عہدیدار اعلیٰ قیادت کی گرفتاری کے بعد احتجاج، سیمینار، کانفرنس، سوشل میڈیا پر پوسٹ اور ایسی کسی بھی سرگرمی کا اہتمام نہیں کر سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیم سے وابستہ ارکان کو خود تنظیم کی دستاویزات اور دیگر معلومات مقامی پولیس کو دینا ہوں گی۔ ایسا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ PFI Ban For Five Years پی ایف آئی پر پانچ سال کے لئے پابندی عائد
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) اور اس کی ذیلی تنظیموں یا ملحقہ اداروں یا طلبہ ونگ پر پانچ سال کی مدت کے لیے فوری طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔ معلومات کے مطابق پی ایف آئی کے علاوہ ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن (آر آئی ایف)، کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی)، آل انڈیا امام کونسل (اے آئی آئی سی)، نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (این سی ایچ آر او)، نیشنل ویمن فرنٹ، جونیئر فرنٹ، ایمپاور انڈیا فاؤنڈیشن اور ری ہیب فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
آپکو بتادیں کہ 22 ستمبر اور 27 ستمبر کو این آئی اے، ای ڈی اور ریاستی پولیس نے پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے۔ چھاپوں کے پہلے دور میں پی ایف آئی سے وابستہ 106 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ چھاپوں کے دوسرے دور میں پی ایف آئی سے تعلق رکھنے والے 247 افراد کو گرفتار اور حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد تفتیشی ایجنسیوں نے وزارت داخلہ سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی سفارش پر وزارت داخلہ نے پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔