انڈونیشیا میں مقیم سینکڑوں افغان مہاجرین نے پیر کو جکارتہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین ایجنسی کے دفتر کے سامنے ریلی نکالی اور اپنی بازآبادکاری کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے دفتر کے سامنے ریلی کے دوران مہاجرین نے بڑے بڑے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "ہمارے خاندان خطرے میں ہیں۔ براہ کرم ابھی کاروائی کریں" اور "مہاجرین کو آباد کریں اور جانیں بچائیں"۔
مظاہرین میں سے کچھ افراد ایک دہائی سے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔
2011 میں انڈونیشیا پہنچنے والی سیفہ سعید نے کہا کہ وہ کبھی کبھی محسوس کرتی ہیں کہ ان کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کبھی کبھی میں اپنے بچوں کو دیکھ کر خود کو مار ڈالنا چاہتی ہوں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔"
انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کرنے والا ملک نہیں ہے اور حکومت مہاجرین کو کام کرنے یا اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں تک رسائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Afghans refugee: دہلی میں افغان مہاجرین کا مظاہرہ
مہاجر حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ "ہم نے تیسرے ملک میں آباد ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ لوگ 2011، 2012، 2013 سے یہاں رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 10 سال سے کوئی بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔"
دسمبر 2020 میں انڈونیشیا میں 50 ممالک کے تقریباً 14,000 مہاجرین رجسٹرڈ تھے، جن میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔
بہت سے پناہ گزین کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے کے لیے جمپنگ پوائنٹ کے طور پر انڈونیشیا پہنچ گئے۔ لیکن 2013 سے آسٹریلوی حکومت نے ان جہازوں کو واپس انڈونیشیائی پانیوں میں بھیج دیا۔