ETV Bharat / bharat

جکارتہ میں افغان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ریلی

انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کرنے والا ملک نہیں ہے اور حکومت مہاجرین کو کام کرنے یا اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں تک رسائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

author img

By

Published : Nov 16, 2021, 1:28 PM IST

Afghan refugees rally in Jakarta for resettlement
Afghan refugees rally in Jakarta for resettlement

انڈونیشیا میں مقیم سینکڑوں افغان مہاجرین نے پیر کو جکارتہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین ایجنسی کے دفتر کے سامنے ریلی نکالی اور اپنی بازآبادکاری کا مطالبہ کیا۔

جکارتہ میں افغان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ریلی

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے دفتر کے سامنے ریلی کے دوران مہاجرین نے بڑے بڑے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "ہمارے خاندان خطرے میں ہیں۔ براہ کرم ابھی کاروائی کریں" اور "مہاجرین کو آباد کریں اور جانیں بچائیں"۔

مظاہرین میں سے کچھ افراد ایک دہائی سے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔

2011 میں انڈونیشیا پہنچنے والی سیفہ سعید نے کہا کہ وہ کبھی کبھی محسوس کرتی ہیں کہ ان کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کبھی کبھی میں اپنے بچوں کو دیکھ کر خود کو مار ڈالنا چاہتی ہوں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔"

انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کرنے والا ملک نہیں ہے اور حکومت مہاجرین کو کام کرنے یا اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں تک رسائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Afghans refugee: دہلی میں افغان مہاجرین کا مظاہرہ

مہاجر حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ "ہم نے تیسرے ملک میں آباد ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ لوگ 2011، 2012، 2013 سے یہاں رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 10 سال سے کوئی بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔"

دسمبر 2020 میں انڈونیشیا میں 50 ممالک کے تقریباً 14,000 مہاجرین رجسٹرڈ تھے، جن میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔

بہت سے پناہ گزین کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے کے لیے جمپنگ پوائنٹ کے طور پر انڈونیشیا پہنچ گئے۔ لیکن 2013 سے آسٹریلوی حکومت نے ان جہازوں کو واپس انڈونیشیائی پانیوں میں بھیج دیا۔

انڈونیشیا میں مقیم سینکڑوں افغان مہاجرین نے پیر کو جکارتہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین ایجنسی کے دفتر کے سامنے ریلی نکالی اور اپنی بازآبادکاری کا مطالبہ کیا۔

جکارتہ میں افغان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ریلی

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے دفتر کے سامنے ریلی کے دوران مہاجرین نے بڑے بڑے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "ہمارے خاندان خطرے میں ہیں۔ براہ کرم ابھی کاروائی کریں" اور "مہاجرین کو آباد کریں اور جانیں بچائیں"۔

مظاہرین میں سے کچھ افراد ایک دہائی سے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔

2011 میں انڈونیشیا پہنچنے والی سیفہ سعید نے کہا کہ وہ کبھی کبھی محسوس کرتی ہیں کہ ان کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کبھی کبھی میں اپنے بچوں کو دیکھ کر خود کو مار ڈالنا چاہتی ہوں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔"

انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کرنے والا ملک نہیں ہے اور حکومت مہاجرین کو کام کرنے یا اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں تک رسائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Afghans refugee: دہلی میں افغان مہاجرین کا مظاہرہ

مہاجر حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ "ہم نے تیسرے ملک میں آباد ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ لوگ 2011، 2012، 2013 سے یہاں رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 10 سال سے کوئی بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔"

دسمبر 2020 میں انڈونیشیا میں 50 ممالک کے تقریباً 14,000 مہاجرین رجسٹرڈ تھے، جن میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔

بہت سے پناہ گزین کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے کے لیے جمپنگ پوائنٹ کے طور پر انڈونیشیا پہنچ گئے۔ لیکن 2013 سے آسٹریلوی حکومت نے ان جہازوں کو واپس انڈونیشیائی پانیوں میں بھیج دیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.