الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک حکنمامہ میں کہا کہ دو بالغوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ازدواجی ساتھی کا انتخاب کریں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما پر مشتمل بنچ نے شفا حسن اور ان کے ہندو ساتھی کی جانب سے دائر درخواست پر یہ حکم دیا ہے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے اکٹھے رہتے ہیں لیکن ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
عدالت نے بین المذاہب جوڑے کو تحفظ فارہم کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ ان کے والدین بھی ان کے رشتے پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
بنچ نے کہا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ دو بالغوں کو اپنے ازدواجی ساتھی کے انتخاب کا حق ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
بینچ نے مزید کہا کہ چونکہ موجودہ پٹیشن ان دو افراد کی مشترکہ درخواست ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بالغ ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں کوئی بھی یہاں تک کہ ان کے والدین بھی ان کے تعلقات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ درخواست دہندگان کو خاتون کے والد یا کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہراساں نہ کیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا کہ خاتون نے ہندو مذہب قبول کرنے کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی۔
مذکورہ درخواست پر ضلعی مجسٹریٹ نے متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس شخص کے والد شادی کے لیے راضی نہیں ہیں ۔لڑکی کے والدین اس رشتے کے مخالف ہیں۔
اسی کے پیش نظر جوڑے نے ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔