ETV Bharat / bharat

مذہب جو بھی ہو، بالغ اپنے شریک حیات کا انتخاب کر سکتے ہیں: الہ آباد ہائی کورٹ - بالغوں کو ازدواجی ساتھی کے انتخاب کا حق حاصل ہے

الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک حکنمامہ میں کہا کہ 'دو بالغوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ازدواجی ساتھی کا انتخاب کریں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی کو دو مختلف مذاہب والے جوڑوں کی زندگی میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔'

الہ آباد ہائی کورٹ
الہ آباد ہائی کورٹ
author img

By

Published : Sep 17, 2021, 12:07 PM IST

Updated : Sep 17, 2021, 12:51 PM IST

الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک حکنمامہ میں کہا کہ دو بالغوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ازدواجی ساتھی کا انتخاب کریں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما پر مشتمل بنچ نے شفا حسن اور ان کے ہندو ساتھی کی جانب سے دائر درخواست پر یہ حکم دیا ہے۔

درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے اکٹھے رہتے ہیں لیکن ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

عدالت نے بین المذاہب جوڑے کو تحفظ فارہم کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ ان کے والدین بھی ان کے رشتے پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

بنچ نے کہا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ دو بالغوں کو اپنے ازدواجی ساتھی کے انتخاب کا حق ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

بینچ نے مزید کہا کہ چونکہ موجودہ پٹیشن ان دو افراد کی مشترکہ درخواست ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بالغ ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں کوئی بھی یہاں تک کہ ان کے والدین بھی ان کے تعلقات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ درخواست دہندگان کو خاتون کے والد یا کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہراساں نہ کیا جائے۔

یہ بھی کہا گیا کہ خاتون نے ہندو مذہب قبول کرنے کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی۔

مذکورہ درخواست پر ضلعی مجسٹریٹ نے متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس شخص کے والد شادی کے لیے راضی نہیں ہیں ۔لڑکی کے والدین اس رشتے کے مخالف ہیں۔

اسی کے پیش نظر جوڑے نے ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک حکنمامہ میں کہا کہ دو بالغوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ازدواجی ساتھی کا انتخاب کریں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما پر مشتمل بنچ نے شفا حسن اور ان کے ہندو ساتھی کی جانب سے دائر درخواست پر یہ حکم دیا ہے۔

درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے اکٹھے رہتے ہیں لیکن ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

عدالت نے بین المذاہب جوڑے کو تحفظ فارہم کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ ان کے والدین بھی ان کے رشتے پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

بنچ نے کہا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ دو بالغوں کو اپنے ازدواجی ساتھی کے انتخاب کا حق ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

بینچ نے مزید کہا کہ چونکہ موجودہ پٹیشن ان دو افراد کی مشترکہ درخواست ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بالغ ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں کوئی بھی یہاں تک کہ ان کے والدین بھی ان کے تعلقات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ درخواست دہندگان کو خاتون کے والد یا کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہراساں نہ کیا جائے۔

یہ بھی کہا گیا کہ خاتون نے ہندو مذہب قبول کرنے کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی۔

مذکورہ درخواست پر ضلعی مجسٹریٹ نے متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس شخص کے والد شادی کے لیے راضی نہیں ہیں ۔لڑکی کے والدین اس رشتے کے مخالف ہیں۔

اسی کے پیش نظر جوڑے نے ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

Last Updated : Sep 17, 2021, 12:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.