رئیس انصاری کا اصل نام سید عبدالقوی جبکہ قلمی نام رئیس انصاری ہے۔
یکم مارچ 1951 میں لکھنؤ کے دریائی ٹولہ پاٹا نالہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اور محمود نگر میں رہائش پذیر رہے۔
1975 سے باضابط شاعری کی ابتداء ہوئی، اور 1979میں پہلا مجموعہ ‘تجربوں کی دھوپ‘ نام سے منظر عام پر آیا۔
اس کے علاوہ سچائیاں، ورثہ، تہذیب، چوپال، ہمارا لکھنؤ نثری کتاب کی بھی خوب پذیرائی ہوئی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم نے شاعری کی باضابطہ طور پر شروعات کی، اس زمانے میں لکھنؤ کی تہذیب مٹ رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب دہلی اجڑ گیا اس کے بعد دہلی کے قلم کاروں نے لکھنؤ کو اپنا دوسرا مسکن بنایا ۔ جس کے بعد دبستان لکھنو کا وجود ہوا۔ انہیں کی قلمی کاوشوں سے اردو شاعری کو تازگی حاصل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اپنی شاعری میں سماج کی فرسودہ روایات، مزدور و مظلوم، بے سہارا غریب کی آواز کو بلند کرنے کی کوشش تھی۔ زندگی کے ہر پہلو پر اشعار لکھے ہیں۔ وہیں لکھنو کی مٹتی ہوئی تہذیب پر بھی غزل لکھا:
اپنی بربادی کے ڈر سے ڈر رہا ہے لکھنؤ
اس نئی آب و ہوا سے مر رہا ہے لکھنؤ
ناسخ وآتش کی بستی ہے قدم آہستہ رکھ
مدتوں اردو زبان کا گھر رہا ہے لکھنؤ
رفتہ رفتہ اٹھ گئے سب بزم سے اہل سخن
اپنے مٹ جانے کا ماتم کر رہا ہے لکھنؤ
لکھنوی تہذیب ہو یا لکھنوی شعر و ادب
دہلی والوں کے لیے نشتر رہا ہے لکھنؤ
انہوں نے کہا ایک زمانہ تھا جب لکھنؤ میں مشاعروں کا رواج ہوا کرتا تھا اردو تہذیب و ادب کے حوالے سے محفلیں منعقد ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ رواج ختم ہوگئی۔
انہوں نے اپنی شعری سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ملک و بیرونی ممالک میں سینکڑوں مشاعرے بطور شاعر شریک ہوے۔ اور خوب مقبولیت پائی۔
مزید پڑھیں:
ایک شاعر: بدر واسطی (شاعر) سے خاص بات چیت
شعری سفر میں علی سردار جعفری ایوارڈ، اردو اکیڈمی سے متعدد ایوارڈز ، حیات اللہ انصاری ایوارڈ، ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ اس کے علاوہ متعدد اعزاز سے نوازا گیا۔
نمونہ کلام
در و دیوار سخن کرنے لگے ہم سے
اب تیرے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر سکتا
جب کیا ترک تعلق تو یہ اندازہ ہوا
اس نے میرا حلقہ احباب واپس کر دیا
وہ ہمیں ڈھونڈ کے ایک رات میں گھر لے آیا
میں اسے ڈھونڈنے جاتے تو زمانے لگتے