ریاست بہار کے ضلع گیا کے اندر ایک ایسی خانقاہ ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت، ہندو مسلمان کے درمیان کی نفرت کو مٹاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ خانقاہ محبت و بھائی چارے کی مثال بنی ہوئی ہے۔ خانقاہ شہر گیا میں واقع ہے، جو وشنو اور گوتم بدھ کا بھی شہر ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں اس قدیم خانقاہ سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اس خانقاہ کا نام چشتیہ منعمیہ ابوالعلائیہ ہے۔ یہ خانقاہ ہندوستانی ثقافت کی ایک روشن علامت ہے۔ Khanqah in Gaya
سجادہ نشین حضرت مولانا مفتی سید شاہ صباح الدین منعمی کے مطابق ربیع الاول میں ملک میں پہلی بار 'سیرت' کی مجلس اسی خانقاہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ روایت آہستہ آہستہ ملک کے مختلف حصوں اور علاقوں میں پھیل گئی۔ یہاں یہ عمل 1840 عیسوی سے جاری ہے۔ اس خانقاہ کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے، یہاں ربیع الاول کے موقع پر سیرت کے جلسے کا اہتمام چاند کی پہلی تاریخ کو ہی شروع ہو جاتا ہے، جو مسلسل بارہ دنوں تک جاری رہتا ہے۔ یہ شاید ملک کی واحد خانقاہ ہے جہاں مسلسل بارہ دنوں تک سیرت النبی پر جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس سیرت النبی کے جلسے میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طبقے کے لوگ بھی 'پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ' کی حیات و خدمات ، کردار و عمل اور پوری سیرت کو سننے آتے ہیں۔ انہی میں ایک ادے کمار ہیں، جو صبح میں 'مندر میں پوجا ' کرتے ہیں اور رات میں سیرت النبی سننے کو خانقاہ پہنچتے ہیں۔ ان کا یہ سلسلہ گزشتہ دس برسوں سے جاری ہے، ادیے کمار نے ابھی گزری 'نوترا ' کو جہاں عقیدت کے ساتھ منایا۔ وہیں اس دوران وہ پابندی کے ساتھ سیرت النبی کی مجلس میں بھی پہنچتے رہے، ادیے کمار کہتے ہیں کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت وہ سن چکے ہیں جس میں انہوں نے پایا کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صلہ رحمی اخلاق امن محبت انصاف اور انسانیت پر رہی ہے۔
ادیے کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمان اور اسلام کے تعلق سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کی سیرت سے واقفیت حاصل کریں۔ جب ہم واقف ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ پیغمبر محمد کی پوری زندگی انسانیت کے لیے درس ہے۔ جس طرح سے گیتا رامائن میں گناہ اور برائیوں سے بچنے کو کہا گیا ہے اسی طرح پوری زندگی پیغمبر نے لوگوں کو برائیوں سے روکا ہے، پیغمبر کا انصاف قبیلہ برادری مذہب کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ ان کا انصاف حقیقت سچائی پر مبنی تھا۔ مظلوموں کے ساتھ وہ کھڑے ہوتے تھے اور ظالموں سے لڑتے۔ انہوں نے کہا کہ آج اپنے ملک میں ضرورت ہے کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر آکر ایک دوسرے کی مذہبی روایتوں کتابوں کو پڑھیں اور سمجھیں اس سے آپسی رنجش مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوگا۔
خانقاہ کے ناظم سید شاہ عطاء فیصل بتاتے ہیں کہ ادیے کمار ہی نہیں بلکہ کئی اور ایسے ہندو بھائی ہیں جو سیرت کی مجلس سننے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خانقاہ ابوالعلائیہ جو کہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی علامت ہے۔ مسلم آبادی سے بہت دور ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ یہ وشنو پد مندر کے بہت قریب واقع ہے
خانقاہ کی ہزار سالہ قدیم تاریخ
اس خانقاہ کی تاریخ کے حوالے سے سجادہ نشین حضرت سیدشاہ صباح الدین منعمی بتاتے ہیں کہ اس کا آغاز خواجہ معین الدین چشتی کے خلیفہ حضرت خواجہ تاج الدین دہلوی سے ایک ہزارسال پہلے ہوا تھا۔ اس سے قبل یہ کانپور کے کالپی شریف میں قائم ہوئی تھی۔ شہنشاہ داؤد شاہ کے اسرار پر اس خانقاہ کے بزرگ شہنشاہ کے ساتھ بہار کے حاجی پور آئے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے پٹنہ کے مغل پورہ اور پھر دانا پور میں شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے حکم پر کچھ عرصہ قیام کیا
سیرت کا جلسہ کیسے شروع ہوا
حضرت خواجِہ بہار حاجی الحرمین حضرت سید شاہ عطا حسین فانی چشتی منعمی نے 1840 عیسوی میں عرب اورعجم کا سفر کیا۔ وہاں قیام کے دوران انہیں احساس ہوا کہ سیرت رسول کا بیان لوگوں کے درمیان ضروری ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو 14 مجالس میں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ حج سے واپسی کے بعد انہوں نے ربیع الاول کے ماہ میں مسلسل بارہ دنوں تک سیرت رسول پر بیانات دینے کا سلسلہ شروع کیا۔
اس بار بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت بیان کی جارہی ہے۔ حسب روایت اس دفعہ بھی سجادہ نشین سید شاہ محمد صباح الدین چشتی منعمی نے بیان کیا۔ خانقاہ مسلم آبادی کے درمیان واقع نہیں ہے۔ مسلم محلہ نادرا گنج اس سے ایک کلومیٹر دور ہے۔ جہاں خانقاہ واقع ہے، اسے نواگڑھی کہا جاتا ہے۔ خانقاہ چاروں طرف سے سناتن دھرم کی آبادی کے ماننے والوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہاں کا مشہور مندر' وشنوپد مندر' خانقاہ سے قریب ہے سیرت کابیان سننے کئی ایسے لوگ آتے ہیں، جو پچاس برسوں سے تسلسل کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔