مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد قلمکاروں کی جانب سے مرحوم سلطان سبحانی کے انتقال پر تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا اور ادبی دنیا میں ان کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، صحافی اور مصور کی حیثیت سے برصغیر ہند و پاک میں مشہور رہے ہیں۔ انہوں نے مالیگاؤں سے جاری شدہ رسائل "نشانات" اور "ہم زباں" کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ مشہور ادبی رسالہ "شاعر" کے متعدد سرورق کو ان ہی کی مصوری کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
سلطان سبحانی کے افسانوں کے مجموعوں میں اجنبی نگاہیں (1966)، راستے بھی چلتے ہیں (1969)، میرا کھویا ہوا ہاتھ (1987)، بدن گشت بادبان (1990)، شام کی ٹہنی کا پھول (1999)، اندھے سانپ والا (2012) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چند شعری مجموعے اور ادب اطفال کے تحت کچھ ناول بھی شائع ہوئے ہیں۔
ان کے انتقال پر انہیں بطور خراج عقیدت ان کے افسانوں کا مجموعہ "میرا کھویا ہوا ہاتھ" باذوق قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس مجموعہ میں سلطان سبحانی کا وہ یادگار افسانہ "چابک بدست امام" بھی شامل ہے جس کی اشاعت 1979ء کے دوران پاکستان میں ممنوع قرار دی گئی تھی۔۔
مزید پڑھیں:۔ کتاب 'مالیگاؤں کی سیاسی و سماجی تاریخ' نوجوان کے لیے ایک نایاب تحفہ
ناقد ڈاکٹر انور سدید نے ان کے تعلق سے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے لکھا کہ سلطان سبحانی کے افسانے تاثر کی ڈولتی ہوئی کرن کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تاثر بعض اوقات چند جملوں میں سما جاتا ہے اور کسی کنکریٹ کردار کا سہارا تک نہیں لیتا۔ بعض اوقات یہی تاثر طویل افسانے کا روپ دھارتا ہے اور نہ صرف پوری صورت واقعہ کو ابھارتا ہے بلکہ کرداروں اور فضا کی تخلیق بھی کرتا ہے۔