کہتے ہیں نام میں کیا رکھا ہے اور کوئی اپنے لوگوں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے۔ آج ہم ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بتائیں گے جس نے برطانوی حکمرانوں کو ان کی سرزمین پر دہشت کا احساس دلایا تھا۔ 13 مارچ 1940 کو ادھم سنگھ نے پنجاب کے سابق لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوائر (former lieutenant governor of Punjab, Michael O'Dwyer ) کو اس وقت گولی مار دی جب وہ لندن کے کیگسٹن ہال میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس طرح سردار ادھم سنگھ نے جلیانوالہ باغ (Jallianwala Bagh ) قتل عام کا بدلہ لیا۔
لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوائر کے قتل کے علاوہ جس چیز نے انگریزوں کو سب سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا، وہ چیز تھی سردار ادھم سنگھ کا نام۔ دراصل جب ادھم سنگھ نے او ڈوائر کو گولی ماری تھی، تب حراست میں لیے جانے کے بعد اپنے ہم وطنوں میں اتحاد کا پیغام دینے کے لیے انہوں نے اپنی پہچان ’رام محمد سنگھ آزاد‘ کے طور پر پیش کی۔ پہلا نام ہندو، دوسرا مسلمان، تیسرا سکھ، یہ تنیوں نام بھارت کے تین مذہب کے درمیان موجود اتحاد کو ظاہر کر رہا تھا اور آخر میں آزاد، جو آزاد بھارت کے خواب کو رونما کر رہا تھا۔
اس نام نے برطانوی حکومت کی 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی کو چیلنج کیا جس کے ذریعے انگریز اتنے بڑے ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس ملک پر 200 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی۔ اس لیے انگریزوں کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ یہ نام رکھنے والے کو پھانسی دینے سے پہلے اس نام کو ختم کیا جائے۔
ادھم سنگھ اس وقت 19 برس کے تھے، جب انہوں نے جلیانوالہ باغ میں انگریزوں کی بربریت کو دیکھا تھا۔ انہوں نے درخت کے پیچھے چھپ کر انگریز حکومت کی ظلم و جبر کا برداشت کیا تھا اور اسی وقت انہوں نے اس قتل عام کا بدلہ لینے کا عزم کرلیا تھا۔ لیکن جلیانوالہ باغ قتل عام کے ذمہ دار جنرل ڈائر کی موت ادھم سنگھ کے منصوبہ بنانے سے پہلے سنہ 1927 کو ہوگئی تھی۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ قتل عام کی منظوری دینے والا اہلکار انگلینڈ میں زندہ ہے۔
- مزید پڑھیں: جلیان والا باغ: بھارت کی تحریک آزادی کا ایک اہم موڑ
- جلیاں والا باغ سانحہ: 102 سال بعد بھی زخم مندمل نہیں ہوئے
جس کے بعد ادھم سنگھ نے وہاں پہنچنے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی۔ ادھم سنگھ نے پہلے جنوبی افریقہ کا سفر کیا اور وہاں سے لندن کا رخ کیا۔ لندن پہنچ کر وہ غدرپارٹی میں شامل ہوگئے، اس پارٹی کا مقصد بیرون ملک میں مقیم بھارتیوں کو آزادی کی جدوجہد کے لیے متحرک کرنا تھا۔ سنہ 1927 میں ادھم سنگھ بھگت سنگھ کے حکم پر بھارت واپس تو آگئے۔ لیکن انہیں ملتان میں اسلحہ رکھنے اور 'غدر دی گونج' کےپمفلٹس تقسیم کرنے پر گرفتار کرلیا گیا۔وہ آرمز ایکٹ کے تحت سنہ 1931 تک پانچ سال تک جیل میں بند رہے۔جیل سے رہا ہونے کے بعد انہیں پنجاب پولیس کی نگرانی میں رکھا گیا۔ لیکن چھپ چھپاتے ہوئے وہ کشمیر جانے میں کامیاب ہوگئے اور جہاں سے وہ سنہ 1934 میں انگلینڈ پہنچے۔
لندن میں قیام کے دوران انہوں نے انجینئرنگ کی نوکریاں شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بڑے دن کے لیے تیار کرنا شروع کردیا۔ اس درمیان انہیں معلوم ہوا کہ مائیکل او ڈوائر 13 مارچ 1940 کو لندن کے کیکسٹن ہال میں ایک تقریب سے خطاب کرنے والے ہیں۔
ادھم نے ایک کتاب کے اندر پستول کو چھپا لیا۔ اجلاس ختم ہوتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھے اور اپنی بندوق کی تمام گولیوں کو ڈوائر کے جسم میں خالی کر دیا۔ جہاں فوری طور پر ان کی موت واقع ہوگئی۔ جس کے بعد ادھم سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں برکسٹن جیل میں قید کیا گیا ۔ جب ان سے اپنے مقاصد کی وضاحت کرنے کو کہا گیا تب سنگھ نے کہا کہ ' انہوں نے طویل عرصے سے ڈوائر کے خلاف اس نفرت کو پالا ہے اور ڈوائر کو مرنا ہی تھا'۔ میں 21 سال سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا'۔
ادھم سنگھ کو 31 جولائی 1940 کو پینٹونویل جیل میں پھانسی دی گئی۔ سنہ 1974 میں برطانیہ نے اس وقت کی انڈین حکومت کے اصرار پر اسے انڈیا واپس لانے کی اجازت دی۔
ادھم سنگھ ایک ایسا نام ہے جس نے کئی نوجوان نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کے ذریعہ رام محمد سنگھ آزاد کا نام استعمال کرنا آج کی فرقہ پرست قوتوں کے درمیان ' مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کی مثال کو پیش کرتا ہے۔