نئی دہلی: اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 2005-06 اور 2019-21 کے درمیان 41.5 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں اور سال 2030 تک غربت میں رہنے والے ہر عمر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے تناسب کو کم از کم نصف کرنے کے پائیدار ترقی کے ہدف (ایس ڈی جی) کو حاصل کرنا ممکن ہے۔منگل کو پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے 2022-23 پیش کرتے ہوئے، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ جب دنیا عالمی وبا کے اثرات اور جاری جنگ کے اثرات سے نکل رہی ہے۔ بھارت اپنے امرت کال میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ دور ایک ایسے دور کا وعدہ کرتا ہے جہاں معاشی ترقی کو سماجی بہبود سے مدد ملتی ہے، جہاں آج بھارت یہ عہد کرتا ہے کہ کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی ترقی اور پیش رفت کے اثرات اور فوائد بے شمار ثقافتوں، زبانوں، خطوں سے آگے بڑھ کر، اپنے تمام متنوع اور وسیع آبادی جو ملک کی اصل دولت کی تعمیر کرتے ہیں تک پہنچ جائے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ سماجی بہبود پر توجہ عصری منظر نامے میں اور بھی زیادہ محتاط ہو گئی ہے جب بھارت نے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی 2030 کو اختیار کیا ہے جوجامع، دور رس اور لوگوں پر مرکوز عالمگیر اور تبدیلی کے اہداف کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے 17 اہداف افراد کی سماجی بہبود سے متعلق ہیں اور جن میں یہ عزم کیاگیا ہے کہ موجودہ اور 2030 کے درمیان ہرجگہ سے غربت اور بھوک کو ختم کرنے، ممالک کے درمیان عدم مساوات کا مقابلہ کرنے، پرامن، منصفانہ اور جامع معاشرے کی تعمیرکرنے، انسانی حقوق کے تحفظ اور صنفی مساوات، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کو فروغ دینے اور کرہ ارض اور اس کے قدرتی وسائل کی پائیدار سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ہم قومی ترقی اور صلاحیتوں کی مختلف سطحوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پائیداراور جامع اقتصادی ترقی، سب کے لیے مشترکہ خوشحالی اور عظیم کام کے لیے بھی عہد کرتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2016 سے ملک کے شہریوں کے سماجی مفاد کے متعدد پہلووں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سماجی خدمات پر حکومت کے اخراجات میں اضافہ دکھایاگیا ہے۔ حکومت کے کل اخراجات میں سماجی خدمات کے اخراجات کا حصہ مالی سال 2018 سے 2020 تک تقریباً 25 فیصد رہا ہے۔ مالی سال 2023 (بجٹ تخمینہ) میں یہ بڑھ کر 26.6 فیصد ہو گیا ہے۔ سماجی خدمات کے اخراجات میں مالی سال 2020 کے مقابلے میں مالی سال 2021 میں 8.4 فیصد کا اضافہ ہوا اور مالی سال 2021 کے مقابلے میں مالی سال 2022 میں مزید 31.4 فیصد اضافہ ہوا، خاص طور پر وبائی امراض کے برسوں میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اخراجات میں اضافے کی ضرورت تھی جہاں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے سماجی شعبے کے اخراجات کا تخمینہ 2015-16 میں 9.15 لاکھ کروڑ تھا، جو بتدریج بڑھ کر مالی سال 2023 میں (بجٹ تخمینہ) میں 21.3 لاکھ کروڑ ہو گیا۔
سروے کے مطابق، سماجی خدمات کے کل اخراجات میں صحت پر ہونے والے اخراجات کا حصہ مالی سال 2019 کے 21 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 2023 (بجٹ تخمینہ) میں 26 فیصد ہو گیا ہے۔ پندرہویں مالیاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ یونین اور ریاستوں کا مشترکہ طورپر ے ترقی پسند طریقے سے صحت عامہ کے اخراجات 2025 تک جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تک بڑھایا جانا چاہیے۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے، صحت کے شعبے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے بجٹی اخراجات مالی سال 2023 (بجٹ تخمینہ) میں جی ڈی پی کے 2.1 فیصد اور مالی سال 2022 میں 2.2 فیصد تک پہنچ گیا، جبکہ مالی سال 2021 میں یہ 1.6 فیصد تھا۔ جائزے کے مطابق، 135.2 کروڑ آدھار اندراج کیے گئے ہیں، 75.3 کروڑ باشندوں نے راشن سے مستفید ہونے کے لیے اپنے آدھار کو راشن کارڈ سے لنک کیاہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 27.9 کروڑ باشندوں نے ایل پی جی سبسڈی کے لیے ایل پی جی کنکشن کے ساتھ آدھار کولنک کیا ہے اور 75.4 کروڑ بینک کھاتوں کو آدھار کے ساتھ لنک کیاگیا ہے اورآدھار اینبلڈ پیمنٹ سسٹم (اے ای پی ایس) کے ذریعے 1500 کروڑ سے زیادہ لین دین کئے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Economic Survey 2023 Highlights اقتصادی سروے کے اہم نکات
یواین آئی