کسانوں کے احتجاج کا آج 100 واں دن ہے۔ اس کی شروعات 26 نومبر کو اس وقت ہوئی جب سینکڑوں ٹریکٹر قومی دارالحکومت دہلی کی طرف روانہ ہوئے۔ دہلی سرحد تک پہنچنے کے لئے کسانوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی، سخت ترین سردی، واٹر کینن، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے شامل ہیں۔
مضبوط محاذوں کا قیام
سخت ترین رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے بعد کسان بالآخر سنگھو بارڈر پر اپنا پہلا محاذ بنانے میں کامیاب ہوئے، اس محاذ میں ابتدا میں پنچاب اور ہریانہ کے قریب تین سے چار لاکھ کسانوں نے پہل کی۔
بہت کم عرصے میں کسانوں کے احتجاج نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہلچل مچا دی۔ چند دنوں میں ہی ریاست اتر پردیش اور راجستھان کے کسان بھی احتجاج کی حمایت میں شامل ہو کر ٹکری اور غازی پور میں مورچہ زن ہو گئے۔
سمیوکت کسان مورچہ کی بنیاد
کاشتکار تنظیموں نے حکومت سے مذاکرات سے قبل متفقہ طور سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نامی تنظیم کی تشکیل دی جس میں چالیس مختلف کسان تنظیموں کے رہنما شامل ہیں۔
حکومت اور کسانوں نے پہلے ہی دن یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی بات چیت کے درمیان کوئی اور سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔
ملک بھر میں احتجاج کی مدت میں توسیع
کسانوں کے اس احتجاج کو پنجاب اور ہریانہ کی خواتین کی بھی زبردست حمایت حاصل ہے۔ ایس کے ایم میں بھی خواتین رہنماوں کو شامل کیا گیا تھا تاکہ وہ تحریک میں خواتین کی نمائندگی کر سکیں۔ اس دوران ہندوستان کے جنوبی اور مغربی حصے (خاص طور پر بنگلورو، حیدرآباد اور ممبئی) میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں اور تمل ناڈو، مہاراشٹر اور کیرالہ سے لگ بھگ 10800 (مہاراشٹر سے دس ہزار اور کیرالہ اور تمل ناڈو سے چار چار سو) کسان سنگھو بارڈر پہنچے۔
مذاکرات
حکومت اور ایس کے ایم کے درمیان 11 دور کے مذاکرات ہوئے جن کا کوئی بھی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ حکومت نے کسانوں کے دو مطالبات کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم کسانوں کی پہلی اور سب سے بڑی مانگ ’’نئے زرعی قوانین‘‘ کو واپس لینے سے حکومت نے صاف انکار کر دیا جس پر کسانوں نے احتجاج کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
مرکزی سرکار نے کئی مرتبہ کسانوں سے پانچ رکنی کمیٹی بنانے کی سفارش کی تھی۔ اس تجویز کو بھی کسانوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ ممبروں پر کامل اعتماد نہیں کر سکتے، ممبر قوانین میں ترمیم کی سفارش کرے گی جبکہ کسان ان قوانین کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
ہندوستانی میڈیا اور کسانوں کا احتجاج
دریں اثنا، بھارتی میڈیا نے ’’جان بوجھ کر پرامن احتجاج کو پٹری سے اتارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘‘ متعدد الیکٹرانک میڈیا اداروں نے کسانوں کو 'دہشت گرد' اور 'خالصتانی' بھی قرار دیا۔
میڈیا کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے کسانوں نے ٹرولی میڈیا نامی اخبار کی اشاعت بھی شروع کی جس میں چالیس رضا کار کام کر رہے ہیں۔ اخبار کی قیمت پانچ روپے مقرر کی گئی ہے۔ تاہم پہلے روز 2000 کاپیاں مفت تقسیم کی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ 26 جنوری کو کسانوں کی تنظیموں نے مرکز کے تینوں نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے کی حمایت میں ایک ٹریکٹر پریڈ نکالی اور اس دوران کسانوں اور پولیس کے مابین پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس دوران کچھ مظاہرین لال قلعے پر پہنچ گئے اور وہاں تاریخی عمارت کی فصیل پر کسان تنظیم اور مذہبی جھنڈے لگا دئے تھے۔
26 جنوری کو پولیس نے تشدد کیس میں 44 رپورٹ درج کی اور اس ضمن میں قریب 150 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
کئی نشیب و فراز اور مشکلات سے گزرتے ہوئے کسان سنگھو سرحد پر جمع ہوئے ہیں اور مرکزی سرکار سے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں۔ مرکزی سرکار کے مطابق نئے زرعی قوانین سے کسانوں کو بہت فائدہ ہوگا، انہیں فصل کی بھرپور قیمت ملے گی، تاہم کسانوں کے مطابق اس سے صرف چند صنعت کاروں کو ہی فائدہ ہوگا۔
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں شروع کیے گئے کسانوں کے احتجاج کو آج 100 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسان رہنماوں اور حکومت کے مابین مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ مستقبل میں کسان احتجاج کون سا رخ اختیار کر پائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔