اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع امیر الدولہ لائبریری کو ملک کی قدیم عوامی لائبریریوں Lucknow Amir-ud-Daula Public Library میں شمار کیا جاتا ہے، اس لائبریری میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں اردو، عربی، فارسی، پالی، تبتی اور رامائن کے نایاب نسخے ہیں جو دیگر لائبریریوں میں نہیں ملتے۔
لکھنؤ کی تاریخی امیر الدولہ لائبریری گزشتہ ڈیڑھ برس سے بند امیر الدولہ لائبریری کو کورونا کے پیش نظر حکومت کی گائیڈ لائن کے مطابق گزشتہ برس بند کر دیا گیا Amir-ud-Daula Public Library is closed تھا تاہم اب جب بازار، تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز کے ساتھ ساتھ سبھی عوامی مقامات پر آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے لیکن لائبریری آج بھی بند ہے جس کی وجہ سے طلبا و طالبات کو کتابیں خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
لکھنؤ کی تاریخی امیر الدولہ لائبریری گزشتہ ڈیڑھ برس سے بند بیشتر طلبا و طالبات کی مالی حالت بہتر نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اسی لائبریری میں پڑھنے آتے تھے اور لائبریری میں موجود نادر و نایاب نسخوں سے استفادہ کرتے تھے۔
لکھنؤ کی تاریخی امیر الدولہ لائبریری گزشتہ ڈیڑھ برس سے بند اس ضمن میں لائبریری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوویڈ وبا کے دوران حکومت کی جانب سے جاری گائیڈ لائن کے مطابق لائبریری بند کر دی گئی Amir-ud-Daula Public Library is closedتھی جس کے بعد لکھنؤ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے لکھنؤ اسمارٹ سٹی اسکیم کے تحت لائبریری کو ڈیجیٹل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت اب تک تقریباً 50ہزار کتابیں ہی ڈیجیٹل ہوئی ہیں اور اسی کام کے لیے لائبریری کو کھولا نہیں جارہا ہے۔
لکھنؤ کی تاریخی امیر الدولہ لائبریری گزشتہ ڈیڑھ برس سے بند مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ امیر الدولہ لائبریری کی بنیاد 1868 میں اودھ ریاست میں شامل محمودآباد کے راجہ نواب علی خان کے ولی عہد امیر حسن خان نے رکھی تھی ان کے والد کے انتقال کے بعد امیر حسن کو امیرالدولہ کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1907 میں یہ لائبریری لکھنؤ کی لال بارادری منتقل ہوئی 1910 میں چھوٹی چھتر منزل میں عوامی لائبریری کے نام سے معروف ہوئی۔ 6مارچ 1926 کو سر ہر کورٹ بٹلر نے قیصر باغ میں دوبارہ اس لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا جہاں آج بھی یہ اپنی شان کے ساتھ موجود ہے۔