سرینگر:سنہ 2022 کے مئی مہینے کی تین تاریخ کو آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقعے پر رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (رپورٹرز سانز فرنٹیئرز) کے ذریعہ جاری کردہ 180 ممالک کے عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت 150ویں نمبر پر آ گیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ آٹھ پائیدان نیچے تھا۔ اس سے ملک میں صحافت کی آزادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ تو ملکی منظر نامہ ہے ۔ جموں و کشمیر کی صورتحال اگرچہ کبھی بھی صحافیوں کے لیے بہتر نہیں تھی تاہم پانچ اگست 2019 کے بعد حالات مزید ابتر ہوئے ہیں۔Press Freedom Index India 2022
سنہ 2019 کو جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی تو سب سے پہلے یہاں کی صحافت متاثر ہوئی۔ انٹرنیٹ اور فون خدمات معطل ہوئیں جس سے کئی روز تک صحافی اپنا پیشہ وارانہ کام نہیں انجام دے سکے۔ عالمی سطح پر اس بلیک آؤٹ کے خلاف جب احتجاج ہوا تو انتظامیہ کی جانب سے سرینگر میں ایک میڈیا سینٹر قائم کیا گیا جہان انہیں سرکاری نگرانی میں کام کرنے کی محدود اجازت ملی۔ Kashmiri Journalists After Article 370 Abrogation
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں انتظامیہ کی جانب سے قدغن لگا کے وہ خوفزدہ محسوس کرتے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پریس کلب نہیں رہا،کئی صحافی جیل میں ہیں، ہراساں کیے جاتے ہے اور صحافیوں کو ملک سے باہر بھی نہیں جانے دیا جاتا ہے۔
صحافی آکاش حسن جن کو گزشتہ مہینے سری لنکا اپنے پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے نہیں دیا گیا کا کہنا ہے کہ "کشمیر میں صحافی مشکلات کا سامنا بہت عرصے سے کر رہے ہیں۔ لیکن سنہ 2019 سے حالات خراب ہوگئے ہیں، جس کا اندازہ عالمی پریس فریڈم انڈیکس سے لگایا جا سکتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے اور اُن کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے سے روکا جاتا ہے۔ جس طرح مجھے سری لنکا جانے سے روکا گیا تھا جہاں میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات کو انجام دینے جا رہا تھا۔ اسی طرح میرے سے پہلے پلیٹیزر انعام یافتہ سنا ارشاد متو اور دیگر صحافیوں کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا تھا۔ اس سب کے چلتے صحافیوں میں خوف بڑ گیا ہے۔
وہیں ایک مقامی صحافی ظہور ملک کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حالات ایسے ہیں کہ آپ غیر جانبدارانہ طریقے سے اپنا کام انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔آپ حکام سے سوال نہیں کر سکتے ہیں۔اگر انتظامیہ کہتی ہے کہ تصادم تھا تو آپ کو بھی وہیں کہنا پڑتا ہے اس کے باوجود بھی آپ کے ذرائع کیا کہتے ہیں۔ احتجاج ہوتے رہتے ہیں تاہم آپ انتظامیہ کے خلاف زبان نہیں کھل سکتے ہیں۔ "
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"کئی صحافیوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگایا گیا ہے، کئی کو تھانوں میں پوچھ تاچھ کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ایسے معتدد معاملات پانچ اگست 2019 کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان سب کے چلتے صحافیوں کے غیر جانبدارانہ طریقے پر کام کرنے پر کافی اثر پڑا ہے۔
قبل ذکر ہے کہ آصف سلطان، پیرزادہ فہد شاہ اور ساجد گل اب کافی عرصے سے جیل میں بند ہیں اور اُن پر پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے کے تحت معاملات درج کیے گئے ہیں۔
صحافی رتی شرما کا کہنا ہے کہ "پانچ اگست کے بعد صحافیوں کی زندگی کافی تبدیل ہوئی ہے۔ کشمیر میں تو حالات بد سے بدتر ہو گئے ہے۔ یہاں پریس کلب تھا جہاں صحافی ملکر کئی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے تھے تاہم اب نہ پریس کلب ہے اور نہ صحافیوں کے بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"اور اگر آپ کشمیر کی بات کریں تو یہاں آپ کو کسی کی ہدایتوں پر عمل کرنا پڑتا ہے اور اگر آپ نہیں کرتے ہیں تو آپ کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ یہاں تک کی آپ کی چینل پر بھی قدغن لگ سکتی ہے۔ ایسی حالات ہیں یہاں پر۔"
اسی طرح کے خیالات دیگر صحافی وسیم نبی، حیا جاوید اور راشد مقبول کے بھی بیان کیے۔ وسیم نبی نے بتایا کہ وہ خوف کی وجہ سے ہمیشہ اس الجن میں رہتے ہیں کہ "کون سی خبر کریں اور کون سی نہ کریں۔
حیا جاویڈ کہتے ہے کہ "صحافی کا کام ہے سوال کرنا جس سے سرکار کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ کہیں کوئی کسر رہی ہو تو صحافیوں کے کام کی وجہ سے دور ہو سکتی ہیں۔ صحافی اپنے خيلات کا اظہار نہیں کر سکتے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ ہم کو ہمارا کام غیر جانبداری طور کرنے دے نہ کہ کوئی قدغن لگا کے۔"
مزید پڑھیں:
کشمیر کے ایک نامور صحافی راشد مقبول کا کہنا ہے کہ صحافت عمومی طور پُرخار میدان ہے۔ جس میں صحافیوں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کشمیر میں صحافیوں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزاد صحافت جمہوریت کے لیے لازمی جز ہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ"میں یہ نہیں کہتا کہ صحافیوں کی جانب سے کوئی غلطیاں نہیں ہوتی ، لیکن اُن پر کارروائی کرنے کے لیے ادارے ہے اور قانوں ہے۔ صحافیوں اور انتظامیہ کے درمیان ایک میکینزم ہونا چاہیے جس سے صحافیوں کے مسائل حل کیے جا سکے۔
بتادیں کہ گزشتہ برس وادی کے چار معروف صحافیوں جن مین شوکت موٹا، ہلاک میر، اظہر قادری اور شاہ عباس کو کشمیر فائٹ بلاگ معاملے میں پولیس کی جانب سے طلب کیا گیا تھا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ان کے تمام الیکٹرانک آلات اور دیگر دستاویز ضبط کیے گئے تھے۔ بعض صحافیوں اس اقدام کو صحافی برادری میں خوف پیدا کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ایک سینیئر صحافی نے نام نہ بتانے کے شرط پر کہا کہ "کیا ملا؟ کیا ہوا اس معاملے کا؟ یہ سب کچھ نہیں تھا بس ہم کو خوف زدہ کرنے کا طریقہ۔"Kashmir Flight Blog Case