پانچ اگست 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد عائد پابندیاں پھر 2020 کا کورونا لاک ڈاؤن اور اب رواں برس کے اپریل مہینے سے وائرس کی دوسری لہر کی شدت کے ساتھ ہی جاری لاک ڈاؤن نے جہاں سماج کے ہر ایک طبقے کو متاثر کیا وہیں خواجہ سرا متاثرین کی فہرست میں اوپر نظر آرہے ہیں۔
اگرچہ کشمیری خواجہ سرا سڑکوں پر لوگوں سے پیسے مانگنے کے بجائے میچ میکنگ یعنی رشتے کروانے یا شادیوں میں ناچنے گانے سے اپنی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں لیکن گزشتہ تین برس کے دوران اس برادری کا یہ کام بھی بری طرح متاثر ہوچکا ہے جس وجہ سے یہ نان شَبِینَہ کے محتاج بن گئے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی ظاہری چمک دھمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ اور اونچے قہقہے ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت کو چھپاتی ہے۔
خواجہ سرا کہتے ہیں کہ اب تک کسی بھی حکومت نے ان کے حقوق پر کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک ہی محدود رہی۔ اور کورونا کی موجودہ صورتحال کے دوران بھی انہیں حسب روایت فراموش ہی کیا گیا۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق خواجہ سراؤں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہیں لیکن آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اگرچہ 2014 میں عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلے کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا۔ لیکن جموں و کشمیر میں اس فیصلے کی رو سے انہیں ابھی تک وہ شناخت بھی نہیں ملی ہے۔
خواجہ سراؤں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سونزل کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز احمد بندھ کہتے ہیں کہ خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لئے زرا مشکل ہے۔ وہیں اب کورونا وائرس کے اس دور میں بھی اس طبقے کو ہر لحاظ سے نظر انداز ہی کیا جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں خواجہ سراؤں کےایک گروپ نے حکومت کی توجہ مبزول کرانے کے لیے احتجاج بھی درج کیا۔ اس موقعہ پر خواجہ سراؤں نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ ان کے درپیش مسائل و مشکلات ازالہ کیا جائے تاکہ ان کے ہاں بھی چولہا جل سکے۔ خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلی ماہ کا سلوک رواں رکھا جا رہا ہے۔ نہ کہیں مسائل کی سنوائی ہورہی ہے اور نہ ہی مشکلات کے حل کی خاطر ان کیطرف کوئی دھیان دے رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجے کے تحت حقوق کی پاسداری عمل میں لائی جائے تاکہ یہ طبقہ بھی اپنی زندگی بہتر طور گزار سکے۔