سرینگر /نئی دہلی : سپریم کورٹ نے ایک اہم پیش رفت میں بدھ کو کرگل خطے میں ’’لداخ ہِل ڈیولپمنٹ کونسل‘‘ (LAHDC) کے انتخابات کے لیے پانچ اگست کو یو ٹی لداخ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے اور انتظامیہ سے ان انتخابات کے لئے از سر نو نوتفکیشن جاری کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ پہلی متنازع نوٹفکیشن کے مطابق یہ انتخابات 10 ستمبر کو ہونے والے تھے - سپریم کورٹ نے لداخ انتظامیہ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے جب کہ عدالت نے ضلع میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کو انتخابی نشان ’’ہَل‘‘ کے استعمال کی اجازت دیتے ہوئے اس حوالہ سے لداخ انتظامیہ کی جانب سے دائر عرضی کو مسترد کر دیا۔
مبصرین کے مطابق عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ لداخ انتطامیہ کے ماتھے پر ایک طمانچے کے مترادف ہے کیونکہ انتظامیہ نے انتخابات کو عجلت میں منعقد کرنے اور نیشنل کانفرنس کو ان سے دور رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) ’’ہل‘‘ (انتخابی ) نشان کی حقدار ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ مرکز کے زیر انتظام خطہ لداخ کی طرف سے جے کے این سی کو ’’ہل‘‘ کے نشان کی الاٹمنٹ کی مخالفت کرنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے سنایا۔ عدالت نے درخواست دائر کرنے پر لداخ انتظامیہ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا اور (یونین ٹیریٹری لداخ) انتظامیہ کو سات دن میں نئے انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس احسان الدین امان اللہ پر مشتمل بنچ، جس نے یکم ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، نے یہ فیصلہ سنایا۔ جسٹس امان اللہ نے فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھتے ہوئے کہا: ’’ان وجوہات کی بناء پر، لداخ کی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ تمام انتخابی عمل کو منسوخ کیا گیا ہے۔‘‘ آرڈر کی تفصیلی کاپی کا انتظار ہے۔ یاد رہے کہ لداخ انتظامیہ نے جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ کی جانب سے جے کے این سی کے لیے ’ہل‘ کے نشان کو باقی رکھنے کی ہدایت کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ انتظامیہ کا استدلال تھا کہ نیشنل کانفرنس چونکہ جموں و کشمیر کی ایک علاقائی جماعت ہے اور قومی پارٹی نہیں ہے، اسلئے اسے ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ نیشنل کانفرنس نے اس استدلال کو مسترد کیا کیونکہ اسکا کہنا ہے کہ صرف چار سال قبل تک خطہ لداخ جموں و کشمیر کا حصہ تھا ، لہٰذا مقامی پارٹیاں دونوں حصوں میں موجود تھیں اور انہیں اسی ہیئت میں قبول کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کے دن لئے گئے فیصلے تحت جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتطام دو خطون میں تقسیم کیا گیا۔ حالانکہ لیہہ ضلع میں اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا لیکن کرگل میں کافی دیر تک یہ فیصلہ قبول نہیں کیا گیا اور اسکے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ بعد میں کرگل کے لیڈروں نے بھی لداخ یونین ٹریٹری کے قیام کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ لداخ مین سابق فوجی بریگیڈیر بی ڈی مشرا کی زیر قیادت انتظامیہ نے الیکشن نشان کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچایا ۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کا الزام ہے کہ ایل جی انتطامیہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بالواسطہ طور تعاون دینا چاہتی تھی اور یہ اقدام مرکز میں حکمران جماعت کی شہہ پر ہی کیا گیا۔
ادھر، سپریم کورٹ کی جانب سے ’ہل‘ نشان باقی رکھنے کے احکامات صادر کرنے پر این سی لیڈران نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اس ضمن میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ’’نیشنل کانفرنس کے حق میں (سپریم کورٹ کا) فیصلہ آیا ہے۔ ہمیں وہ عطا کیا گیا جس کے ہم حق دار ہیں۔‘‘ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’بی جے پی اور لداخ کی جانبدارانہ انتظامیہ نے مل کر ہمیں ہمارے حق سے محروم رکھنے کی سعی کی تاہم سپریم کورٹ میں نہ صرف انہیں منہ کی کھانی پڑی بلکہ ان پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔‘‘
ادھر نیشنل کانفرنس کے ترجمان تنویر صادق نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انکی جماعت کیلئے ایک اہم جیت کا مظہر ہے۔ انکے مطابق ابتدائی طور پر لداخ انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم کو روکنے کی کوشش کی لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اس کے بعد، انہوں نے ہائی کورٹ کی طرف سے شروع کی گئی توہین عدالت کی کارروائی کو روکنے کی کوشش کی، لیکن سپریم کورٹ نے بھی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے پاس 'ہل' کی علامت پر ایک جائز دعویٰ ہے اور امید ہے کہ لداخ انتظامیہ ضروری احکامات جاری کرکے عدالت کی ہدایات پر عمل کرے گی۔
بی جے پی یا اس کی انتظامیہ کے اقدامات سے قطع نظر، بالآخر عوام ہی اپنے ووٹوں کے ذریعے کرگل کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی اور نیشنل کانفرنس عوامی فیصلے کو تسلیم کرے گی
مزید پڑھیں: NC Election Symbol انتخابی نشان 'ہل' کو لداخ انتظامیہ نے انا کا مسئلہ بنایا، این سی