سرینگر: جموں کشمیر میں حق اطلاعات قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن-2005) کے تحت عوام کی جانب سے سرکاری کام و کاج کے متعلق جانکاری حاصل کرنے میں کمی واقع دیکھی جارہی ہے۔ سنہ 2021 کے مقابلے میں سنہ 2022 میں حق اطلاعات قانون کے تحت جانکاری حاصل کرنے میں کمی دیکھی گئی ہے۔
سینٹر فار ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آی) کے ایک رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر یونین ٹریٹری میں سنہ 2022 میں آر ٹی آئی کی 1 ہزار 63 درخواستیں جمع ہوئی جبکہ سنہ 2021 میں یہ تعداد 1 ہزار 99 تھی۔اس رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر میں 31.44فیصد کمی درج کی گئی ہے۔سی ایچ آر آی نے یہ تفصیلات سنٹرل انفارمیشن کمیشن کے سالانہ (2021-2022) رپورٹ کے تجزئے کے بعد پیش کئے۔
رپوٹ کے مطابق 2020-21 میں جموں کشمیر سے محض 94 درخواست ہی جمع ہوئے تھے، جو سنہ 2019-20 کے مقابلے میں زیادہ ہے، کیونکہ اس سال محض 12 آر ٹی آی جمع ہوئی تھی۔جموں کشمیر کے متعلق ایچ آر آی رپوٹ حیران کن ہے کیونکہ سنہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر کا حق اطلاعات قانون-2009 بھی ختم ہوا تھا۔
جموں وکشمیر کا آر ٹی آئی قانون ملک کے قانون سے زیادہ فعال تھا۔ اس قانون کے مطابق جموں کشمیر میں سٹیٹ انفارمیشن کمیشن تعینات تھے جس کا ایک چیف انفارمیشن کمشنر اور دو کمشنر ہوتے تھے۔اس کمیشن کا دفتر سرینگر اور جموں میں تھے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد اس کمیشن کو بند کیا گیا۔آر ٹی آی کارکنان اور عام لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کے حق اطلاعات قانون کو ختم کرنے سے کشمیر میں عام لوگوں نے آر ٹی آی جمع کرنے میں کم دلچسپی دکھائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ہے کہ درخواست دہندگان کو درخواست کی سماعت کرنے کے لیے دہلی کے سنٹرل انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ درخواست کی سماعت کے لئے دہلی جانا مشکل ہے، وہیں آئن لائن درخواست کی سماعت میں کافی وقت لگتا ہے، جس سے لوگ اب اس قانون کی طرف عدم دلچسپی دکھانے لگے ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ بیروکریٹک نظام میں جموں کشمیر یونین ٹریٹری میں اس قانون کی قدر نہیں کی جارہی ہے اور افسران درخواست کو نظر انداز کرتے ہے۔
مزید پڑھیں: آر ٹی آئی ایکٹ بہتر طریقے سے نافذ کرنے کا مطالبہ