ETV Bharat / state

روشنی قانون فیصلے پر نظرثانی درخواست، سماعت 11 دسمبر کو

مفاد عامہ عرضی میں مدعی کی طرف سے پیش ہوئے وکیل شیخ شکیل نے بتایا کہ جب سے پی آئی ایل نمبر 19/2011 میں فیصلہ آیا ہے، حقائق کے برعکس ایک غلط بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کو تالاب، دریا، سرکاری زمین جنگلات زمین ہڑپنے کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ فیصلے میں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔

روشنی قانون فیصلے پر نظرثانی درخواست، سماعت 11 دسمبر کو
روشنی قانون فیصلے پر نظرثانی درخواست، سماعت 11 دسمبر کو
author img

By

Published : Dec 9, 2020, 7:22 AM IST

جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے روشنی اراضی بدعنوانی کے تحت کچھ افراد اور علاقہ جات کے خلاف کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سی بی آئی کو ہدایت دی ہے کہ بند لفافے میں اے ٹی آر پیش کرے۔

روشنی اسکیم قانون سے متعلق دائر نظرثانی درخواست جس پر عدالت عالیہ نے 16 دسمبر تک سماعت ملتوی کر دی تھی، پر یوٹی انتظامیہ کی طرف سے ایک نئی درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اِس کی سماعت 16 دسمبر سے پہلے کی جائے۔

چیف جسٹس گپتا متل اور جسٹس راجیش بندل پر مشتمل ڈویژن بنچ نے قبل از وقت سماعت کے لئے دائر عرضی پر سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آسیم سہنی سے سوال کیا کہ اِس معاملہ میں کیا ضروری ہے جس کے جواب میں موصوف نے بتایا کہ سی بی آئی نے تحقیقاتی عمل شروع کر دیا ہے لیکن یہ عمل اُن مقدمات تک محدود کر دیاگیا ہے جس کی انکوائری پہلے انٹی کرپشن بیورو کر رہی تھی، اس سے یوٹی حکومت کے افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر سی بی آئی کو اِن معاملات میں تحقیقات کی اجازت دی گئی تو پھر حل شدہ معاملات بھی بگڑسکتے ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آسیم سہنی نے کہا کہ یوٹی انتظامیہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایک پالیسی مرتب کرے اور 9 اکتوبر 2020 کو ڈویژن بنچ کی طرف سے مفاد عامہ عرضی 19/2011 فیصلے سے کسان اور غریبوں کو باہر رکھا جائے۔

مفاد عامہ عرضی میں مدعی کی طرف سے پیش ہوئے وکیل شیخ شکیل نے بتایا کہ جب سے پی آئی ایل نمبر 19/2011 میں فیصلہ آیا ہے، حقائق کے برعکس ایک غلط بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کو تالاب، دریا، سرکاری زمین جنگلات زمین ہڑپنے کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ فیصلے میں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فیصلے کی غلط طریقہ سے ترجیحی کی جارہی ہے۔ جان بوجھ کر ایک مخصوص طبقہ سے تعلق رکھنے والے روشنی اسکیم مستفیدین کے نام میڈیا میں شائع کئے جارہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ڈویژن بنچ فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسا کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے اِس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زبانی طور کہا 'ہم نہیں چاہتے کہ تمدن، علاقہ، مذہب اور حیثیت کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز ہو، ہم نہیں چاہتے کہ تحقیقاتی عمل میں کوئی خامی رہے اور تحقیقات شفاف ہونی چاہئے۔'

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فیصلے کا ارادہ ہرگز غیر ضروری طور لوگوں کو نشانہ نہیں بنانا تھا۔ ڈی بی نے سی بی آئی کونسل مونیکا کوہلی کو ہدایت دی کہ وہ بند لفافے میں آئندہ تاریخ میں ایکشن ٹیکن رپورٹ پیش کریں۔ دونوں وکلاء کو سننے کے بعد بنچ نے عرضی تسلیم کرتے ہوئے نظر ثانی سماعت کے لئے 11 دسمبر 2020 کی تاریخ مقرر کی۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز حکومت نے روشنی اسکیم پر 9 اکتوبر کو جموں کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، جو اس نے ایس کے بھلہ بنام ریاست و دیگر کی مفاد عامہ کی عرضی پر سنایا، پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے جموں کشمیر اراضی (قابضوں کو مالکانہ حقوق دینے) کے قانون کو منسوخ قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں حکم کی تعمیل کیلئے متعدد ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ حتیٰ کہ حکومت نے فیصلے کے بعد روشنی ایکٹ پر عملدرآمد کو بھی روک دیا تھا اور تمام منتقلیوں کو منسوخ کیا تھا۔

تین روز قبل ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ایس ایس نندہ نے محکمہ مال کی طرف سے نظرثانی کی درخواست پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ 'بہت سے لوگ بلاقصد اس سے متاثر ہوں گے۔ان میں زمین کے بغیر کاشت کاراور ایسے افراد جو خود چھوٹے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں بدقسمتی سے زمین پر ناجائز طور قبضہ کرنے والے امیر لوگوں، جنہوں نے اب منسوخ کئے گئے قانون کے ذریعے مالکانہ حقوق حاصل کئے، کے ساتھ یکجا کیا گیا۔'

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم نے قانون کی بالادستی کو بحال کیا ہے اور ایک ایسے قانون پر عملدرآمد کو روک دیا ہے جو بامقصد طور غیرآئینی تھا۔ تاہم عرضی میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ اِن دو طبقوں کے درمیان تفریق اور امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے معذور شخص کی المناک روداد

عرضی میں تجویز کیا گیا ہے کہ روشنی اسکیم کے تحت امیر اور با رسوخ لوگوں کی تحقیقات کی جانی چاہیے اور کہا گیا ہے کہ سی بی آئی اس سارے معاملے کے قانونی، پالیسی فریم ورک اور دیگر نکات پر توجہ مرکوز کرے گی۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ نجی افراد کی طرف سے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت یا اس کے بغیر سرکاری زمین پر کئے گئے قبضے کو حاصل کرنے اور ناجائز طور قبضے میں لئے گئے زمین کو جو روشنی ایکٹ کے تحت نہیں آتا تھا یا جس کا اندراجات میں ذکر تک نہیں ہے، عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔اس میں روشنی ایکٹ کی غلط عملدرآمد کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔

سی بی آئی کو تحقیقات میں سہولت بخشنے کیلئے عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا محکمہ مال کے پس منظر والے حکام کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دینے کا ارادہ ہے جو ایسے معاملوں کی تحقیقات کرے گا اور پھر ان کو سی بی آئی کو تفتیشی عمل کی تکمیل کیلئے روانہ کرے گا۔ کل سماعت پر پہلے بنچ نے 16 دسمبر سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔

جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے روشنی اراضی بدعنوانی کے تحت کچھ افراد اور علاقہ جات کے خلاف کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سی بی آئی کو ہدایت دی ہے کہ بند لفافے میں اے ٹی آر پیش کرے۔

روشنی اسکیم قانون سے متعلق دائر نظرثانی درخواست جس پر عدالت عالیہ نے 16 دسمبر تک سماعت ملتوی کر دی تھی، پر یوٹی انتظامیہ کی طرف سے ایک نئی درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اِس کی سماعت 16 دسمبر سے پہلے کی جائے۔

چیف جسٹس گپتا متل اور جسٹس راجیش بندل پر مشتمل ڈویژن بنچ نے قبل از وقت سماعت کے لئے دائر عرضی پر سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آسیم سہنی سے سوال کیا کہ اِس معاملہ میں کیا ضروری ہے جس کے جواب میں موصوف نے بتایا کہ سی بی آئی نے تحقیقاتی عمل شروع کر دیا ہے لیکن یہ عمل اُن مقدمات تک محدود کر دیاگیا ہے جس کی انکوائری پہلے انٹی کرپشن بیورو کر رہی تھی، اس سے یوٹی حکومت کے افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر سی بی آئی کو اِن معاملات میں تحقیقات کی اجازت دی گئی تو پھر حل شدہ معاملات بھی بگڑسکتے ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آسیم سہنی نے کہا کہ یوٹی انتظامیہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایک پالیسی مرتب کرے اور 9 اکتوبر 2020 کو ڈویژن بنچ کی طرف سے مفاد عامہ عرضی 19/2011 فیصلے سے کسان اور غریبوں کو باہر رکھا جائے۔

مفاد عامہ عرضی میں مدعی کی طرف سے پیش ہوئے وکیل شیخ شکیل نے بتایا کہ جب سے پی آئی ایل نمبر 19/2011 میں فیصلہ آیا ہے، حقائق کے برعکس ایک غلط بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کو تالاب، دریا، سرکاری زمین جنگلات زمین ہڑپنے کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ فیصلے میں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فیصلے کی غلط طریقہ سے ترجیحی کی جارہی ہے۔ جان بوجھ کر ایک مخصوص طبقہ سے تعلق رکھنے والے روشنی اسکیم مستفیدین کے نام میڈیا میں شائع کئے جارہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ڈویژن بنچ فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسا کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے اِس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زبانی طور کہا 'ہم نہیں چاہتے کہ تمدن، علاقہ، مذہب اور حیثیت کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز ہو، ہم نہیں چاہتے کہ تحقیقاتی عمل میں کوئی خامی رہے اور تحقیقات شفاف ہونی چاہئے۔'

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فیصلے کا ارادہ ہرگز غیر ضروری طور لوگوں کو نشانہ نہیں بنانا تھا۔ ڈی بی نے سی بی آئی کونسل مونیکا کوہلی کو ہدایت دی کہ وہ بند لفافے میں آئندہ تاریخ میں ایکشن ٹیکن رپورٹ پیش کریں۔ دونوں وکلاء کو سننے کے بعد بنچ نے عرضی تسلیم کرتے ہوئے نظر ثانی سماعت کے لئے 11 دسمبر 2020 کی تاریخ مقرر کی۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز حکومت نے روشنی اسکیم پر 9 اکتوبر کو جموں کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، جو اس نے ایس کے بھلہ بنام ریاست و دیگر کی مفاد عامہ کی عرضی پر سنایا، پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے جموں کشمیر اراضی (قابضوں کو مالکانہ حقوق دینے) کے قانون کو منسوخ قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں حکم کی تعمیل کیلئے متعدد ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ حتیٰ کہ حکومت نے فیصلے کے بعد روشنی ایکٹ پر عملدرآمد کو بھی روک دیا تھا اور تمام منتقلیوں کو منسوخ کیا تھا۔

تین روز قبل ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ایس ایس نندہ نے محکمہ مال کی طرف سے نظرثانی کی درخواست پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ 'بہت سے لوگ بلاقصد اس سے متاثر ہوں گے۔ان میں زمین کے بغیر کاشت کاراور ایسے افراد جو خود چھوٹے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں بدقسمتی سے زمین پر ناجائز طور قبضہ کرنے والے امیر لوگوں، جنہوں نے اب منسوخ کئے گئے قانون کے ذریعے مالکانہ حقوق حاصل کئے، کے ساتھ یکجا کیا گیا۔'

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم نے قانون کی بالادستی کو بحال کیا ہے اور ایک ایسے قانون پر عملدرآمد کو روک دیا ہے جو بامقصد طور غیرآئینی تھا۔ تاہم عرضی میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ اِن دو طبقوں کے درمیان تفریق اور امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے معذور شخص کی المناک روداد

عرضی میں تجویز کیا گیا ہے کہ روشنی اسکیم کے تحت امیر اور با رسوخ لوگوں کی تحقیقات کی جانی چاہیے اور کہا گیا ہے کہ سی بی آئی اس سارے معاملے کے قانونی، پالیسی فریم ورک اور دیگر نکات پر توجہ مرکوز کرے گی۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ نجی افراد کی طرف سے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت یا اس کے بغیر سرکاری زمین پر کئے گئے قبضے کو حاصل کرنے اور ناجائز طور قبضے میں لئے گئے زمین کو جو روشنی ایکٹ کے تحت نہیں آتا تھا یا جس کا اندراجات میں ذکر تک نہیں ہے، عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔اس میں روشنی ایکٹ کی غلط عملدرآمد کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔

سی بی آئی کو تحقیقات میں سہولت بخشنے کیلئے عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا محکمہ مال کے پس منظر والے حکام کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دینے کا ارادہ ہے جو ایسے معاملوں کی تحقیقات کرے گا اور پھر ان کو سی بی آئی کو تفتیشی عمل کی تکمیل کیلئے روانہ کرے گا۔ کل سماعت پر پہلے بنچ نے 16 دسمبر سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.