جیل سے رہا ہونے کے بعد تینوں شہریوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ " 24 برس کی اس طویل مدت میں ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔ ہم بے قصور ضرور تھے لیکن ہمیں کشمیری ہونے کی سزا ملی۔ جیل میں ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا تھا، ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا اور جب وادی میں مظاہرے ہوا کرتے تھے تو اس کا سیدھا اثر جیل میں ہم پر پڑتا تھا۔ اتنا مارا پیٹا جاتا تھا کہ ہمارے کپڑے خون سے لال ہو جاتے تھے''۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے جیل جانے اور باعزت رہا ہونے کے عرصے کے دوران سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم اپنی باقی عمر اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ چین اور سکون سے گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اہل خانہ نے ہمارے بغیر زندگی کیسے بسر کی اسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے'۔
شمس واری کے رہنے والے لطیف احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جب جیل گئے تب میری عمر محض 18 سال تھی اور آج 42 سال کے ہیں۔ ان 24 برسوں میں میرے والد کا انتقال ہوگیا، میرے چھوٹے بھائی کے کندھوں پر گھر کا سارا بوجھ آگیا اور گھر کیسے چلا وہ بس خدا کو ہی پتہ ہے، ہمارے اہل خانہ کا خدا ہی حافظ۔! جیل میں ہم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے جو ناقابل بیان ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ رہا ہونے کی خوشی تو ہے لیکن ابھی انصاف نہیں ملا ہے۔ ان 24 برسوں میں ہمیں جن صعوبتوں اور مشکلات سے گزرنا پڑا اس کے معاوضے کے لیے ہم عدالت کا رخ ضرور کریں گے۔
وہی فتح کدل کے رہنے والے مرزا نثار کا کہنا تھا کہ جب ان کو گرفتار کیا گیا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی، لیکن پولیس نے جان بوجھ کر ان کی عمر 19 سال لکھی تھی تاکہ انہیں بالغ ثابت کیا جا سکے۔ پچھلے 24 برسوں میں ان کی دنیا بدل گئی ہے۔ انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انجان جگہ پر آگئے ہیں۔
جے پور کی جیل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: " پلوامہ حملے کے بعد جے پور جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو ساتھی قیدیوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا اس کے باوجود انہیں ان کے سیل میں قید رکھا گیا، مارا پیٹا گیا۔ جیل میں ہورہی اس زیادتی کے خلاف انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ "
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں جیل میں نہیں گیا ہوتا تو آج اچھی تعلیم حاصل کرکے کچھ بن گیا ہوتا اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کر رہا ہوتا۔
حسن آباد علاقے کے رہنے والے محمود علی بٹ کا کہنا ہے کہ 'جیل جاتے وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ میں بے قصور تھا اور ناحق سزا کاٹ کر آیا ہوں۔ میں نے اس عرصے میں اپنے والدین کو کھو دیا۔ میں نے اپنے بھائی سے وصیت کی تھی کی اگر میرا انتقال ہو جائے تو مجھے میرے والدین کے پہلو میں نہیں دفنانا، میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا'۔
ان کا کہنا تھا 'ہمارا ایک ہی قصور تھا کہ ہم کشمیری تھے۔ جیل میں ہم پر تشدد کیا جاتا اور وہ مظالم ڈھائے جاتے جو ان سے بن پڑتا'۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم جیل میں تھے ہمارے گھروں میں چھاپے ڈالے جاتے تھے، رشتہ داروں اور اہل عیال کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ اب خوشی ہے کہ رہا ہو گئے ہیں اور امید کرتے ہیں اب ہم باقی کی زندگی امن، چین اور سکون سے کاٹ سکیں گے۔
واضح رہے کے سرینگر کے تینوں شہری گرفتار ہونے سے قبل قالین کی تجارت کیا کرتے تھے اور نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں تجارت کے سلسلے میں گئے تھے۔ جہاں انہیں سنہ 1996 کے ماہ جون میں گرفتار کرکے پہلے دہلی کے تہاڑ جیل لایا گیا پھر بعد میں وہیں سے جے پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے انہیں باعزت رہا کردیا گیا۔