ETV Bharat / state

'ہماری زندگی کے 24 برس کون لوٹائے گا'؟ - پاکستانی قیدی

جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے تعلق رکھنے والے تین شہریوں کو راجستھان کی عدالت نے منگل کے روز 24 سال بعد بے قصور قرار دے کر رہا کردیا۔ تینوں شہریوں پر سنہ 1996 میں دہلی اور راجستھان میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

چوبیس برس بعد کشمیری قیدیوں کی رہائی
author img

By

Published : Jul 25, 2019, 11:40 PM IST

Updated : Jul 26, 2019, 9:55 AM IST

جیل سے رہا ہونے کے بعد تینوں شہریوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ " 24 برس کی اس طویل مدت میں ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔ ہم بے قصور ضرور تھے لیکن ہمیں کشمیری ہونے کی سزا ملی۔ جیل میں ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا تھا، ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا اور جب وادی میں مظاہرے ہوا کرتے تھے تو اس کا سیدھا اثر جیل میں ہم پر پڑتا تھا۔ اتنا مارا پیٹا جاتا تھا کہ ہمارے کپڑے خون سے لال ہو جاتے تھے''۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے جیل جانے اور باعزت رہا ہونے کے عرصے کے دوران سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم اپنی باقی عمر اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ چین اور سکون سے گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اہل خانہ نے ہمارے بغیر زندگی کیسے بسر کی اسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے'۔

چوبیس برس بعد کشمیری قیدیوں کی رہائی

شمس واری کے رہنے والے لطیف احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جب جیل گئے تب میری عمر محض 18 سال تھی اور آج 42 سال کے ہیں۔ ان 24 برسوں میں میرے والد کا انتقال ہوگیا، میرے چھوٹے بھائی کے کندھوں پر گھر کا سارا بوجھ آگیا اور گھر کیسے چلا وہ بس خدا کو ہی پتہ ہے، ہمارے اہل خانہ کا خدا ہی حافظ۔! جیل میں ہم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے جو ناقابل بیان ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ رہا ہونے کی خوشی تو ہے لیکن ابھی انصاف نہیں ملا ہے۔ ان 24 برسوں میں ہمیں جن صعوبتوں اور مشکلات سے گزرنا پڑا اس کے معاوضے کے لیے ہم عدالت کا رخ ضرور کریں گے۔

وہی فتح کدل کے رہنے والے مرزا نثار کا کہنا تھا کہ جب ان کو گرفتار کیا گیا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی، لیکن پولیس نے جان بوجھ کر ان کی عمر 19 سال لکھی تھی تاکہ انہیں بالغ ثابت کیا جا سکے۔ پچھلے 24 برسوں میں ان کی دنیا بدل گئی ہے۔ انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انجان جگہ پر آگئے ہیں۔

جے پور کی جیل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: " پلوامہ حملے کے بعد جے پور جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو ساتھی قیدیوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا اس کے باوجود انہیں ان کے سیل میں قید رکھا گیا، مارا پیٹا گیا۔ جیل میں ہورہی اس زیادتی کے خلاف انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ "

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں جیل میں نہیں گیا ہوتا تو آج اچھی تعلیم حاصل کرکے کچھ بن گیا ہوتا اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کر رہا ہوتا۔

حسن آباد علاقے کے رہنے والے محمود علی بٹ کا کہنا ہے کہ 'جیل جاتے وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ میں بے قصور تھا اور ناحق سزا کاٹ کر آیا ہوں۔ میں نے اس عرصے میں اپنے والدین کو کھو دیا۔ میں نے اپنے بھائی سے وصیت کی تھی کی اگر میرا انتقال ہو جائے تو مجھے میرے والدین کے پہلو میں نہیں دفنانا، میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا'۔

ان کا کہنا تھا 'ہمارا ایک ہی قصور تھا کہ ہم کشمیری تھے۔ جیل میں ہم پر تشدد کیا جاتا اور وہ مظالم ڈھائے جاتے جو ان سے بن پڑتا'۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم جیل میں تھے ہمارے گھروں میں چھاپے ڈالے جاتے تھے، رشتہ داروں اور اہل عیال کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ اب خوشی ہے کہ رہا ہو گئے ہیں اور امید کرتے ہیں اب ہم باقی کی زندگی امن، چین اور سکون سے کاٹ سکیں گے۔

واضح رہے کے سرینگر کے تینوں شہری گرفتار ہونے سے قبل قالین کی تجارت کیا کرتے تھے اور نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں تجارت کے سلسلے میں گئے تھے۔ جہاں انہیں سنہ 1996 کے ماہ جون میں گرفتار کرکے پہلے دہلی کے تہاڑ جیل لایا گیا پھر بعد میں وہیں سے جے پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے انہیں باعزت رہا کردیا گیا۔

جیل سے رہا ہونے کے بعد تینوں شہریوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ " 24 برس کی اس طویل مدت میں ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔ ہم بے قصور ضرور تھے لیکن ہمیں کشمیری ہونے کی سزا ملی۔ جیل میں ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا تھا، ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا اور جب وادی میں مظاہرے ہوا کرتے تھے تو اس کا سیدھا اثر جیل میں ہم پر پڑتا تھا۔ اتنا مارا پیٹا جاتا تھا کہ ہمارے کپڑے خون سے لال ہو جاتے تھے''۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے جیل جانے اور باعزت رہا ہونے کے عرصے کے دوران سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم اپنی باقی عمر اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ چین اور سکون سے گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اہل خانہ نے ہمارے بغیر زندگی کیسے بسر کی اسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے'۔

چوبیس برس بعد کشمیری قیدیوں کی رہائی

شمس واری کے رہنے والے لطیف احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جب جیل گئے تب میری عمر محض 18 سال تھی اور آج 42 سال کے ہیں۔ ان 24 برسوں میں میرے والد کا انتقال ہوگیا، میرے چھوٹے بھائی کے کندھوں پر گھر کا سارا بوجھ آگیا اور گھر کیسے چلا وہ بس خدا کو ہی پتہ ہے، ہمارے اہل خانہ کا خدا ہی حافظ۔! جیل میں ہم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے جو ناقابل بیان ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ رہا ہونے کی خوشی تو ہے لیکن ابھی انصاف نہیں ملا ہے۔ ان 24 برسوں میں ہمیں جن صعوبتوں اور مشکلات سے گزرنا پڑا اس کے معاوضے کے لیے ہم عدالت کا رخ ضرور کریں گے۔

وہی فتح کدل کے رہنے والے مرزا نثار کا کہنا تھا کہ جب ان کو گرفتار کیا گیا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی، لیکن پولیس نے جان بوجھ کر ان کی عمر 19 سال لکھی تھی تاکہ انہیں بالغ ثابت کیا جا سکے۔ پچھلے 24 برسوں میں ان کی دنیا بدل گئی ہے۔ انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انجان جگہ پر آگئے ہیں۔

جے پور کی جیل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: " پلوامہ حملے کے بعد جے پور جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو ساتھی قیدیوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا اس کے باوجود انہیں ان کے سیل میں قید رکھا گیا، مارا پیٹا گیا۔ جیل میں ہورہی اس زیادتی کے خلاف انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ "

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں جیل میں نہیں گیا ہوتا تو آج اچھی تعلیم حاصل کرکے کچھ بن گیا ہوتا اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کر رہا ہوتا۔

حسن آباد علاقے کے رہنے والے محمود علی بٹ کا کہنا ہے کہ 'جیل جاتے وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ میں بے قصور تھا اور ناحق سزا کاٹ کر آیا ہوں۔ میں نے اس عرصے میں اپنے والدین کو کھو دیا۔ میں نے اپنے بھائی سے وصیت کی تھی کی اگر میرا انتقال ہو جائے تو مجھے میرے والدین کے پہلو میں نہیں دفنانا، میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا'۔

ان کا کہنا تھا 'ہمارا ایک ہی قصور تھا کہ ہم کشمیری تھے۔ جیل میں ہم پر تشدد کیا جاتا اور وہ مظالم ڈھائے جاتے جو ان سے بن پڑتا'۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم جیل میں تھے ہمارے گھروں میں چھاپے ڈالے جاتے تھے، رشتہ داروں اور اہل عیال کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ اب خوشی ہے کہ رہا ہو گئے ہیں اور امید کرتے ہیں اب ہم باقی کی زندگی امن، چین اور سکون سے کاٹ سکیں گے۔

واضح رہے کے سرینگر کے تینوں شہری گرفتار ہونے سے قبل قالین کی تجارت کیا کرتے تھے اور نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں تجارت کے سلسلے میں گئے تھے۔ جہاں انہیں سنہ 1996 کے ماہ جون میں گرفتار کرکے پہلے دہلی کے تہاڑ جیل لایا گیا پھر بعد میں وہیں سے جے پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے انہیں باعزت رہا کردیا گیا۔

Intro:ریاست جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت سریندر کے رہنے والے تین شہریوں کو راجستھان کی عدالت عالیہ نے منگل کے روز 24 سال بعد بے قصور قرار دے کر رہا کیا۔ تینوں شہریوں پر 1996 میں دہلی اور راجستھان میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔


Body:جیل سے رہا ہونے کے بعد تینوں شہریوں نے مسرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ " انہوں نے جیل میں بتائے 24 برسوں میں بہت کچھ کھویا۔ ہم بے قصور ضرور تھے لیکن ہمیں کشمیری ہونے کی سزہ ملی۔ جیل میں ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا تھا، مارا پیٹا جاتا تھا اور جب وادی میں مظاہر ہوا کرتے تھے تو اس کا سیدھا اثر جیل میں ہم پر پڑتا تھا۔ اتنا مارا پیٹا جاتا تھا کہ ہمارے کپڑے خون سے لال ہو جاتے تھے۔ "

ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے جیل جانے اور باعزت رہائی کے درمیان سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم اپنی باقی عمر سادگی سے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں میں چین اور سکون کے ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے رشتے داروں نے، اہل عیال نے ہمارے بنا زندگی کیسے بسر کی وہ ہم الفاظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ "

شمس واری کے رہنے والے لطیف احمد نےای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جب وہ جیل گئے تب ان کی عمر محض 18 سال تھی اور آج وہ 42 سال کے ہیں۔ ان 24 سالوں میں میرے والد کا انتقال ہوگیا، میرے چھوٹے بھائی کے کندھوں پر گھر کا سارا بوجھ آگیا، اور گھر کیسے چلا اس کا خدا ہی حافظ۔ وہاں جیل میں ہم پر ہر طریقے کا ظلم کیا جاتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کر یہاں ہونے کی خوشی تو ہے لیکن ابھی انصاف ہمیں ملا نہیں۔ ان 24 برسوں میں ہمیں جس پریشانی اور مشکلات سے گزرنا پڑا اس کے معاوضے کے لئے ہم ریاست کی عدالت عالیہ کا رخ ضرور کریں گے۔

وہی فتح قتل کے رہنے والے مرزا نثار کا کہنا تھا کہ جب ان کو گرفتار کیا گیا تب ان کی عمر صرف سترہ برس تھی لیکن پولیس نے جان بوجھ کر ان کی عمر 19 سال لکھی تھی تاکہ انہیں بالنگ ثابت کیا جائے۔ پچھلے 24 برسوں میں ان کی دنیا بدل گئی ہے۔ انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انجان جگہ پر آ گئے ہیں۔

جام پور کی جیل میں کوئی ذاتی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے بتایا: " پلوامہ حملے کے بعد جی پور جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو ساتھی قیدیوں نے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کو اس کی کوئی علمیت نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی اپنی سیل میں قید رکھا گیا، مارا پیٹا گیا۔ جیل میں ہورہی اس زیادتی کے خلاف انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ "

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں جیل میں نہیں گیا ہوتا تو آج پڑھ لکھ کر اپنے اہل و عیال کی اچھی طریقے سے دیکھ بھال کر رہا ہوتا۔

حسن آباد علاقے کے رہنے والے محمود علی بٹ کا کہنا ہے کہ جل جاتے وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ میں بے قصور تھا اور ناحق سزا کاٹ کے آیا ہوں۔ اس عرصے میں میں نے اپنے والدین کو کھویا۔ میں نے اپنے بھائی سے وصیت کی تھی کی اگر میرا انتقال ہو جائے تو مجھے میرے والدین کے پاس نہیں دفنانہ۔ میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔

ان کا مزید کہنا تھا ہمارا ایک ہی قصور تھا کہ ہم کشمیری تھے۔ جیل میں ہمارے ساتھ ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا۔ ہر بیماری کی دوا صرف پیراسیٹامول ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ کہ ہم ایک دوسرے کے بال اور داڑھی بھی خود ہی بناتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم جیل میں تھے ہمارے گھروں میں چھاپے ڈالے جاتے تھے، رشتہ داروں اور اہل عیال کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ اب خوشی ہے کہ رہا ہو گئے ہیں اور امید کرتے ہیں کیا اب ہم باقی کی زندگی امن، چین اور سکون سے کاٹ سکیں گے۔

واضح رہے کے سرینگر کے تینوں شہری گرفتار ہونے سے کبل کالین کی تجارت کیا کرتے تھے اور نیپال کی دارالحکومت کھٹمنڈو میں تجارت کے سلسلے میں گئے تھے۔ جہاں سے ہے 1996 کے جون میں گرفتار کرکے پہلے دہلی کے تہوار جیل جیل لایا گیا یا بعد میں وہیں سے جی پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔


Conclusion:Bytes

1. Lateef Ahmad Waja, Resident of Shamswari (Khankhah)

2. Mirza Nissar, Resident of Fateh Kadal

3. Mehmood Ali Bhat, Resident of Hasanabad (Rainawari)
Last Updated : Jul 26, 2019, 9:55 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.