نئی دہلی: سپریم کورٹ کی طرف سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے ردعمل میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عمر فاروق نے فیصلہ کو"افسوسناک" قدم قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات کرتے ہوئے "کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے لیکن یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا، خاص طور پر موجودہ حالات میں۔ وہ لوگ جنہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت سہولت فراہم کی۔ جموں و کشمیر کے الحاق اور ہندوستانی قیادت کی طرف سے ان کو دیے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں آج گہرا دھوکہ محسوس ہونا چاہیے۔"
انہوں نے کہا، "باقی کے لیے، ریاست جیسا کہ یہ اگست 1947 میں موجود تھی، جنگ بندی کی لکیر پر منقسم ہے، اور اس وجہ سے ایک خون بہہ رہا ہے انسانی اور سیاسی مسئلہ، جس کے ازالے کی بھیک مانگ رہی ہے"۔
میرواعظ کا یہ رد عمل اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر پیر کے روز اپنا فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 370، جس نے سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا، ایک "عارضی شق" تھا۔ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو متفقہ طور پر برقرار رکھا اور جموں و کشمیر کو جلد از جلد ریاست کا درجہ بحال کرنے اور 30 ستمبر 2024 تک اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں:
- دفعہ 370 کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق
- دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں محض ایک پڑاؤ: محبوبہ مفتی
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی ماہرین کا خیال ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے اب ماضی بن چکے ہیں۔ وہیں اس فیصلہ کو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کشمیری رہنماؤں نے مایوسی کن قرار دیکر کیا کہ دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں محض ایک پڑاؤ ہے۔وہیں وادی کے تمام علیحدگی پسند لیڈروں کو 5 اگست 2019 سے جیل میں بند کر دیا گیا ہے یا انہیں مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے مخلتف کیسز میں جیل میں رکھا گیا ہے اور اب حریت کانفرنس کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔