سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس، کشمیر زون، وجے کمار نے جمعہ کے روز جامع مسجد سرینگر میں رونما ہوئے واقعہ سے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں 39 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام افراد پتھر بازی میں ملوث تھے اور ’’پولیس پتھر بازی کے واقعات کو قطعی برداشت نہیں کرے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ان افراد کی نشاندہی کمیرا فوٹیج کے ذریعہ ہوئی ہے جبکہ گرفتار شدہ افراد میں سے ایک درجن نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد ہوگا۔‘‘
غور طلب ہے کہ گزشتہ جمعہ کو شہر خاص میں واقع تاریخی جامع مسجد میں حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کے حامیوں نے ان کی 19 ماہ کی نظر بندی سے رہا کیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے قبل علیٰحدگی پسند رہنما میرواعظ کی رہائی سے متعلق خبریں گشت کر رہی تھیں اور قوی امکان تھا کہ وہ جمعہ کو تقریباً 82 ہفتوں کی مسلسل نظری بندی کے بعد جامع مسجد میں خطبہ جمعہ کے لیے جامع مسجد آئیں گے۔ تاہم میرواعظ کو رہا نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں؛ اگست 2019 سے جموں و کشمیر میں مختلف مقامات سے 627 افراد کو حراست میں لیا گیا
اس دوران وہاں درجنوں افراد نے ان کی رہائی کے حق میں نعرہ بازی کی۔ جمعہ کی نماز کے بعد وہاں پتھر بازی کے چند واقعات بھی پیش آئے جس میں ایک مقامی خاتون زخمی ہوئی تھی۔
اس دوران پولیس نے چند صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ بھی کی تھی جس کی صحافی انجمنوں نے مذمت کی تھی۔
پریس کانفرنس کے دوران میر واعظ کی رہائی کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وجے کمار خاموش رہے۔
دریں اثنا، وجے کمار نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ پولیس کو چند روز قبل اطلاع ملی تھی کہ سرینگر کے چھانہ پورہ میں عسکریت پسند کمانڈر عباس شیخ چھپا ہوا ہے جس کے فورا بعد پولیس اور سی آر پی ایف کو الرٹ کر کے علاقے پر سخت نگرانی رکھی گئی ہے۔