سرینگر: پرائیویٹ ڈائیگنوسٹک سنٹرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ ان جنرل لیبارٹریز میں ٹسٹ رپورٹ پر دستخط کے لیے ڈاکٹر رکھنے کا کیا مطلب ہے جہاں پر ڈگریاں یا ڈیپلو یافتہ لیب ٹیکنیشنز پیشاب، خون یا دیگر قسم کے معمول کے ٹسٹز انجام دیتے ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر کے دستخط یا نگرانی کی ضرورت ان ڈائیگنوسٹک سنٹرز کو ہے جو کہ پیتھالوجی کے بڑے یا دیگر مخصوص ٹیسٹز انجام دیتے ہیں۔
عام ڈائیگنوسٹک سنٹرز پر ڈاکٹر رکھنے کے نئے فرمان پر نظر ثانی کی جائے" پرائیویٹ ڈائیگنوسٹک سنٹرز ایسوسی ایشن نے سرینگر میں ایک پریس کانفرس کے دوران ان باتوں کا اظہار اس ردعمل میں کیا جس میں جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جنرل اور مخصوص لیبارٹریوں کے مالکان سے کہا گیا ہے کہ وہ اب اپنے ڈائیگنوسٹک سنٹرز پر ڈاکٹر کی موجودگی اور اپنے کسی بھی ٹیسٹ رپورٹ پر ڈاکٹر کے دستخط کو یقینی بنائیں،جو کہ اب تک لیب ٹیکنیشن انجام دیتے آرہے ہیں۔Doctor on Private Diagnostic Labایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبران نے پریس کانفرنس کے دوران حکومتی کے اس حکمنامے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن پرائیوٹ لیبارٹریز میں ڈگری یا ڈپلوما یافتہ پیرا میڈیکس معمول کے ٹیسٹ مریضوں کا کیا کرتے ہیں وہاں اب ڈاکٹروں کا کیا رول بنتا ہے ۔ہاں ان مخصوص لیبارٹریز میں ڈاکٹر (پیتھالوجسٹ ) کی نگرانی کافی اہم ہے جن پرائیوٹ لیبارٹریز میں مریضوں کے مخصوص یا بڑے ٹیسٹز انجام دئیے جاتے ہوں۔Pathologist in Private Labs
انہوں نے کہا جنرل لیباٹریز چھوٹی تشخیصی مراکز ہوتے ہیں جن کے مالکان ڈاکٹر کی ماہانہ تنخواہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ عام ڈائیگنوسٹک سنٹرز کے ملکان پر اضافی بوجھ ہے جو کہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ جب پیشاب کے ٹیسٹ رپورٹ پر دستخط کے لئے لیب میں ڈاکٹر رکھنا ضروری ہے تو جو نوجوان باضابطہ طور تربیت حاصل کر کے وہاں ٹیسٹز انجام دیتے ہیں ان کی پھر کیا اہمیت رہتی ہے۔
مزید پڑھیں:
پریس کانفرنس کے دوران ایسوسی ایشن نے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس اقدام سے متعدد جنرل لیارٹریز بند ہوگی اور جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں وہ نوجواں بے روزگار ہوگے جوکہ ڈگری یا ڈگری یا ڈیپلو یافتہ خون، پیشاب یا دیگر قسم کے چھوٹے چھوٹے ٹیسٹز اپنی نجی لیبارٹریز میں انجام دے کر روزگار کماتے ہیں۔پرائیویٹ ڈائیگنوسٹک سنٹرز ایسوسی ایشن نے جموں وکشمیر انتظامیہ سے اپیل کی وہ اس حکمنامے پر نظر ثانی کر کے انہیں زہنی پریشانی سے نجات دلوائے۔