کشمیر میں پریس کلب کا قیام دہائیوں سے التوا میں تھا کیونکہ صحافیوں کا ایک وسیع حلقہ اسکی مخالفت کررہا تھا۔
لیکن گزشتہ برس محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی، بھاجپا حکومت نے پریس کلب کے قیام کو منظوری دی اور سرینگر کے قلب میں واقع پولو ویو علاقے میں ایک وسیع و عریض عمارت صحافیوں کے حوالے کی جس میں پریس کلب قائم ہوا۔
ابتدا میں کلب کو چلانے کیلئے ایک عبوری کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کلب کے بنیادی ارکان کا انتخاب کیا۔ لیکن اب پریس کلب چلانے کیلئے باضابطہ کمیٹی تشکیل دینے کا معاملہ سیاست کی نذر ہونے لگا ہے۔
اس ماہ پریس کلب کیلئے انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ایک صحافی کی پراسرار گرفتاری کے بعد یہ عمل روک دیا گیا ہے۔
کشمیر میں صحافیوں کی متعدد انجمنیں ہیں جو پریس کلب کی گورننگ باڈی میں اپنا اثرو رسوخ چاہتی ہیں۔
مقامی اخبارات کے مدیروں کی کئی اجنمنیں ہیں، فوٹوگرافروں کی اپنی تنظیم ہے جبکہ ویڈیو گرافرز کا اپنا گروپ ہے۔ غیر مقامی صحافتی اداروں کے نمائندے بھی اپنی تنظیم چلارہے ہیں اور اردو میں لکھنے والے صحافی، اپنا الگ وجود قائم کیے ہوئے ہیں۔
ہر ایک تنظیم چاہتی ہے کہ پریس کلب میں انکا نمائندہ کسی کلیدی عہدے پر فائز ہو جائے۔
الیکشن کیلئے صحافیوں کا الیکشن کیمیشن بھی تشکیل کیا گیا جس میں وادی کے سینئر صحافی شامل تھے۔روزنامہ عقاب کے مدیر منظور انجم کو الیکشن کمیشن کا سربراہ تعینات کیا گیا ۔
لیکن کئی انجمنوں میں امیدواروں کی نامزدگی پراختلافات ہوئے۔ صحافی انجمنوں نے الیکشن میں پسندیدہ امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے ایسی تگ و دو کی جو عام ایکشنز کا خاصہ ہوتی ہے۔
اس بیچ گزستہ دنوں سرینگر سے شایع ہونے والے اردو روزنامہ 'آفاق' کے مدیر جیلانی قادری کو پولیس نے تیس برس پرانے کیس میں گرفتار کیا۔ انہیں بعد میں 16 گھنٹے کی حراست کے بعد عدالت نے ضمانت پر رہا کیا۔
اس صورتحال میں صحافیوں نے الیکشن کمیشن کو تحریری طور الیکشن ملتوی کرنے کی تجویز دی۔
پریس کلب کی اہمیت کو سمجھنے والے صحافیوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ الیکشن جلد از جلد منعقد ہونے چاہئیں تاکہ اس ادارے کو فعال بنایا جائے اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
الیکشن کیمیشن کے رکن اور ایشین میل کے مدیر رشید راحل نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کئی معاملات کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنے پڑے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کیلئے جلد ہی نئی تاریخ کا تعین کیا جائیگا۔
ذرائع کے مطابق جہاں صحافیوں کی انجمنیں، سرینگر کے ایوان صحافت کے انتظام و انصرام کیلئے بننے والے نظم کے بارے میں سنجیدہ ہیں وہاں حکومت کی نظریں بھی اس سے دور نہیں ہیں۔