سرینگر: بجلی کی بحرانی صورتحال کی وجہ سے وادی کشمیر کے لوگ اس وقت گونا گوں مشکلات سے دوچار ہیں۔ بجلی کی رسد اور طالب کے درمیان نمایاں فرق کا خمیازہ عام صارفین بھگت رہے ہیں۔ایسے میں جہاں جبری اور غیر اعلانیہ کٹوتی کا براہ راست اثر ان مریضوں پر پڑھ رہا جو کہ گھروں میں آکسیجن کنسنٹریٹر میں ہیں وہیں سرینگر میں قائم ٹریشری کیئر ہسپتالوں میں بھی کچھ حد تک اس کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
سکمز صورہ، صدر ہسپتال، سی ڈی، جے وی سی ہسپتال،بون اینڈ جوائنٹ اور دیگر اضلاع کے بڑے ہسپتالوں میں بجلی کی خلل کو اگرچہ ڈی جی سیٹس سے دور کیا جارہا ہے تاہم سرکاری ہسپتالوں میں لگے جنریٹر سیٹس صرف آپریشن تھیٹروں اور لیبارٹریوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں تاکہ جراحیوں اور مریضوں کے ٹیسٹنگ میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ آئے۔تاہم بجلی میں خلل کی وجہ سے آن لائن خدمات سمیت ہسپتالوں میں ہیٹنگ سسٹم متاثر ہوجاتا ہے،جس کے نتیجے میں بیماروں اور تیمارداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جے وی سی بمنہ ہسپتال کی میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر شفا دیوا کہتی ہیں کہ بجلی کی مین سپلائی میں خلل کی صورت میں اگرچہ 3 ڈی جی سیٹس کو آپریشن تھیٹروں اور لیبارٹری کے لیے استعمال میں لائے جاتے، لیکن ہپستال کا ہیٹنگ سسٹم متاثر ہوجاتا ہے،وہیں ہوسٹلز بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
بجلی محکمہ امسال صرف مشکل سے 1100 میگاواٹ بجلی فراہم کررہا ہے جبکہ وادی کشمیر میں مصروف ترین اوقات کے دوراب بجلی طلب 2200 میگاواٹ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
صوبائی کمشنر کشمیر نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ طے شدہ بجلی شیڈول پر عمل نہیں ہورہا ہے لیکن بجلی کی صورتحال ایک ہفتہ کے اندر بہتر ہونے کی امید ہے،کیونکہ بجلی خریداری کے معاملے پر ایک کمٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔
ادھر وادی میں میٹر یافتہ علاقوں میں ساڑھے 4 گھنٹے جبکہ غیر میٹر علاقوں میں 8 گھنٹے کا بجلی بند رکھنے کا شیڈول رکھا گیا لیکن ان علاقوں میں 15 گھنٹے کی بجلی کٹوتی ہورہی ہے۔