سرینگر (جموں و کشمیر): کسی بھی شخص کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو وہ فوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ وہاں سے اس کو انصاف ضرور ملے گا۔ عدالتوں کو انصاف کا مندر بھی کہا جاتا ہے، شاید اسی وجہ سے بھی ملک بھر کی عدالتوں میں ہر روز سینکڑوں معاملے سماعت کے لیے دائر کیے جاتے ہیں۔ بعض معاملات (کیسز) میں وقت رہتے ہی فیصلہ کیا جاتا ہے جبکہ بعض کیسز میں کئی دہائیوں تک سماعت جاری رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ججز اور کورٹس کی قلت کیسز کے التواء میں رہنے کی اصل وجہ ہے جبکہ انگریزوں کے زمانے سے چلے آ رہے عدالتی نظام، جس میں ریفارم نہیں کیا گیا، کو بھی کیسز کے التواء میں رہنے کی وجہ گردانا جا رہا ہے۔
نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گریڈ (این جے دی جی) کے رئیل ٹائم اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں اس وقت 4,44,33,697 معاملے زیر التواء ہیں۔ ان میں 3,33,44,252 مجرمانہ، جبکہ 1,10,89,445 سیول مقدمات ہیں۔ جہاں ان میں سے 36,51,098 مقدمات خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں وہیں 28,06,515 معزز شہریوں نے دائر کیے ہیں۔
مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ خطے کی عدالتوں میں اس وقت 3,26,264 معاملے زیر سماعت ہیں۔ ان میں 2,22,823 مجرمانہ ہیں جبکہ دیگر 1,03,441 سیول کیسز ہیں۔ ان میں سے 16,775 خواتین کی جانب سے وہیں 17,574 معزز شہریوں کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں۔ این جے ڈی جی کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر کے ہائی کورٹس میں اس وقت 60,79,392 مقدمے زیر التوا ہیں۔ ان میں 3,92,469 خواتین کی جانب سے وہیں 6,49,205 معزز شہریوں کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں۔
ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ کی بات کریں تو اس وقت کل 44,736 مقدمے زیر سماعت ہیں، جن میں 8,161 مجرمانہ ہیں جبکہ دیگر 35,575 سیول مقدمات ہیں۔ وہیں خواتین نے 2,770 معاملے دائر کیے ہیں اور معزز شہریوں نے 6,633 دائر کیے ہیں۔ اس کے مزید 16 مقدمے ایسے بھی ہیں جو 30 برس سے زائد عرصے سے زیر سماعت ہیں۔ ان میں پانچ مجرمانہ کیسز ہے اور دیگر 11سیول مقدمات ہیں۔
جہاں عدالت کی سرینگر بینچ کے سامنے اس وقت 15,539 معاملے زیر سماعت ہیں وہیں جموں بینچ کے سامنے 29,197 ہیں۔ جموں میں 5,309 مجرمانہ اور 23,888 سویل معاملات ہیں۔ اسی طرح سرینگر میں 2,852 مجرمانہ اور 12,687 سویل معاملے زیر سماعت ہیں۔ سرینگر میں چار معاملات ایسے ہیں جو 30 برس سے زائد عرصے سے زیر سماعت ہیں۔ وہیں 1600 معاملے خواتین اور 2871 معاملے معزز شہریوں نے دائر کیے ہیں۔ اسی طرح جموں میں 12 معاملے گزشتہ 30 برس سے بھی زیادہ عرصہ سے زیر سماعت ہیں۔ وہیں خواتین کی جانب سے 1,170 اور معزز شہریوں کی جانب سے 3,762 معاملے دائر کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے ذو القرنین زلفی نے جموں و کشمیر کے چند معروف وکلاء سے رائے لی، اُن کا کہنا تھا کہ ’’انصاف میں تاخیر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کی انصاف نہیں ملے گا۔‘‘ سینئر ایڈوکیٹ سید ریاض خاور نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے عدالتوں میں کیسز لمبے عرصے تک زیر سماعت رہنے کی چند وجوہات بتائیں: ’’پہلی یہ کہ آبادی کے تناسبت کے لحاظ سے خطے کی عدالتوں میں جج صاحبان موجود نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ چند وکلاء معاملے کی سماعت کو ملتوی کرواتے ہیں گرچہ ایسے وکلاء کی تعداد بہت کم ہے تاہم عدالتوں میں ایسے چند وکلاء موجود ہیں۔ تیسری یہ کہ کورٹ پروسیجر انگریزوں کے زمانے کا ہے، اس لیے اس کی ریفارم کرنے کرنے کی اشد ضرورت ہے، اور چوتھا یہ کہ معمولی معاملے جو دیہی یہ محلہ سطح پر حل کیے جا سکتے ہیں وہ بھی عدالتوں میں آتے ہیں، اس سب سے عدالت کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Justice Magray Inagurates e-filing Portal : ضلع اننت ناگ میں ای فائلنگ پورٹل کا افتتاح
ریاض خاور کا مزید کہنا تھا کہ ’’گاؤں میں آبپاشی کا معاملہ یا دیگر چھوٹے مسائل پنچایت، تحصیل یا محلہ سطح پر بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کو با اختیار بنانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ ادھر، سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ شبیر احمد بٹ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’وہ دن گئے کہ جب ’تاریخ پر تاریخ‘ ملتی تھی۔ ہم سب کوڈ آف سویل/کرمنل پروسیجر کی اتباع کرتے ہیں۔ اس سب میں وقت لگتا ہے۔ دونوں حریف عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہونے چاہئے، جس کے لیے کئی رعایات دی گئی ہیں۔ اس لیے کیسز وقت لگتا ہے، لیکن فوری معاملات پر ارجنٹ بنیادوں پر سماعت ہوتی ہے۔ تاخیر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصاف نہیں ملے گا اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم اپنے موکل کو واضح طور پر کوڈ کے حساب سے معاملے کی سماعت کے تمام پہلوؤں سے قبل از وقت ہی آگاہ کر کرتے ہیں۔‘‘