سرینگر: جموں کشمیر میں گزشتہ دو برسوں سے ندی نالوں سے باجری و ریت بے تحاشہ تعداد اور بغیر سرکاری دیکھ ریکھ کے نکالی جارہی ہے جس سے ان آبی ذخائر میں منفی ماحولیاتی تبدیلی ہورہی ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی کارکنان اور ذرائع ابلاغ نے اس معاملے پر انتظامیہ کو کئی بار باخبر کیا ہے اس کے باوجود متعلقہ افسران نے کوئی ٹھوس کارروئی نہیں ہوئی۔ عوام کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کان کنی سے آبی ذخائر ختم ہورہے ہیں جس سے پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ اب جانوروں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تاہم سماجی کارکنان کی قانونی مداخلت سے اب ان آبی ذخائر کے تحفظ کی امید اس وقت بیدار ہوئی جن نیشنل گرین ٹریبیونل (این جی ٹی) نے اس بے تحاشہ لوٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ Illegal Mining Effect Environment
دراصل ضلع بڈگام کے سماجی کارکن راجہ مظفر نے شالی گنگا ندی میں غیر قانونی اور بے تحاشہ باجری و ریت نکالنے کے سلسلے پر این جی ٹی میں عرضداشت داخل کی جس پر کئی ہفتوں سے سماعت جاری تھی اور بالآخر گزشتہ روز این جی ٹی نے اس سلسلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یاد رہے کہ شالی گنگا ضلع بڈگام کے سیاحتی مقامی یوسمرگ سے گزر کر کئی علاقوں کو پینے کا پانی دستیاب کررہی ہے لیکن کانکنی سے اس کی سطح گہری ہورہی تھی جس سے پانی کا بہاؤ کم ہورہا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے راجہ مظفر بٹ نے کہا کہ انہوں متعدد بار حکام اور میڈیا کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا لیکن اس پر کوئی روک نہیں لگ رہی تھی۔ تاہم این جی ٹی نے ان کی عرضداشت پر فیصلہ سنایا کر اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اب ان کی کوشش ہے کہ وادی کشمیر کے مختلف اضلاع میں ہورہی اس ماحولیاتی لوٹ کھسوٹ پر بھی اسی فیصلے کے تحت پابندی عائد کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے تحت یہ ممکن ہے کہ دیگر ندی نالوں یا دریائے جہلم سے نکالی جانے والی باجری یا ریت پر بھی پابندی عائد کی جائے تاکہ کشمیر کے قدرتی اثاثے محفوظ رہیں۔