کشمیر کی سب سے بڑی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس نے دارالحکومت سرینگر میں واقع پارٹی ہیڈکوراٹرز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس دوران پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے تقریب کے حاشیہ پر میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے شہید مزار پر فاتحہ پڑھنے کے لیے حکام سے اجازت طلب کی تھی لیکن ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے انتظامیہ میں کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ان لوگوں، جو اس وقت صاحب اقتدار ہیں، کو کرسی مفت میں مل گئی ہے اور یہ لوگ عوام کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ وہی کرتے ہیں جس سے ان کے دلی میں بیٹھے آقا خوش ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر کمال نے کہا کہ مرکزی حکومت جموں وکشمیر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ تیزی سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دفعہ 370 غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے ختم کیا گیا اور اس کے لئے اسمبلی کی رضا مندی بھی حاصل نہیں کی گئی۔
بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو کی طرف سے نیشنل کانفرنس کو ہدف تنقید بنائے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: 'ہمارے چھوٹے بڑے لیڈران یا تو گھروں میں یا جیل خانوں میں بند ہیں۔ مادھو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے، لوگوں کے دلوں میں ناراضگی نہیں بلکہ نفرت ہے، ہمارے نوجوان مرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں بلکہ مر رہے ہیں لیکن وہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں'۔
موصوف جنرل سکریٹری نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کے سخت گیر اقدام سے ختم نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا: 'نیشنل کانفرنس آپ (حکومت) کے سخت گیر اقدام سے ختم نہیں ہوگی، ہم وہ منزل حاصل کر کے رہیں گے جب یہاں کے لوگ حقیقی معنی میں اپنے آپ کے مالک ہوں گے'۔
عمر عبداللہ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر کمال نے کہا: 'یہاں لوگ کس کے ساتھ ہیں اس کا پیمانہ ووٹ ہے یہاں اتنی فوج رکھی گئی ہے کہ اس کو لوگ فوجی چھاؤنی کہتے ہیں، یہاں ان کی الیکشن کرانے کی نیت نہیں ہے'۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے عمر عبداللہ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر کہا تھا کہ وہ ہندوستان کا وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ملی ٹنسی میں پہلی بار یہاں یہ دیکھا گیا کہ بر سر اقتدار جماعت کے رکن اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر یہاں آئے اور تعزیت پیش کی پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔