سرینگر (جموں و کشمیر) : جموں کشمیر میں محکمہ امور صارفین 1973 میں لاگو کئے گئے قانون مٹن (لائسنسنگ اور کنٹرول) آرڈر کے تحت گوشت، پولٹری اور اس سے منسلک مصنوعات کی قیمت طے کرتا تھا۔ تاہم مرکزی سرکار کی ہدایت پر اب اس قانون کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ قصاب اس قانون کے اطلاق سے خوش نہیں تھے لیکن عوام کو کچھ حد تک گوشت خریدنے میں راحت ملتی تھی کیونکہ پورے جموں کشمیر میں لگ بھگ نرخ یکساں ہوتے تھے اور قصاب و پولٹری کے کاروبار پر سرکار کی نگرانی رہتی تھی۔
تاہم گزشت برس 18 جنوری میں محکمہ زراعت کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اتل ڈلو نے مرکزی وزارت خوراک اور امور صارفین کو ایک گزارش کی کہ اس قانون کے اطلاق پر نظر ثانی کی جائے۔ تین ماہ بعد مرکزی سرکار کے امور صارفین وزارت نے رواں برس 20 اپریل کو جموں کشمیر امور صارفین محکمہ کو مطلع کیا کہ اس قانون کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔ اس منسوخی سے اب محکمہ امور صارفین، ضلع انتظامیہ اور متعلقہ ایجنسیز - جو گوشت، پولٹری و اس جیسی اشیاسء کے نرخ طے کرتے تھے یا اس کی نگرانی کرتے تھے - کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس سے اجتناب کریں۔
حکومت کے اس فیصلے سے قصاب اور کوٹھدار بہت خوش نظر آ رہے ہیں تاہم عوام میں کافی تشویش پیدا ہوئی ہے۔ صارفین کی یہ رائے ہے کہ یہ شعبہ اب بے لگام ہوگیا ہے اور گوشت و پولٹری کی قیمت میں اب کافی اضافہ ہوگا۔ تاہم قصاب اور کوٹھداروں کا کہنا ہے کہ وہ صارفین کے مفاد کو دیکھ کر ہی گوشت کی قیمت طے کریں گے تاکہ لوگوں کو گوشت خریدنے میں دشواریاں درپیش نہ ہوں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس اہم غذا کی قیمت کا تعین قصابوں کے سپرد کرنا سرکار کی بڑی غلطی ہے۔
مزید پڑھیں:زیادہ قیمت پر گوشت فروخت کرنے پر دکان سیل
وادی کشمیر میں گوشت کا استعمال وافر مقدار میں کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ جیسی اہم تقاریب ’وازوان‘ کے بغیر پھیکی ہیں۔ اس صورتحال میں گوشت اور پولٹری کی قیمت کو حکومتی دائرہ اختیار سے باہر ہونا اس شعبہ میں لاقانونیت کا موجب بن سکتا ہے۔