سرینگر: جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے دفعہ 370 کی منسوخی پر سماعت کے آغاز پر کہا کہ ’’سپریم کوٹ کے چیف جسٹس اور دو سو ججز کے کشمیر دورے کے بعد مقدمے کی سماعت پر خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ کہیں اس میں بی جے پی کی کوئی اور منشاء یا چال تو نہیں ہے!‘‘ سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انہیں کیا خدشات ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کو آئین اور قانون کے مطابق دفعہ 370 پر سماعت کرنی چاہئے اور فیصلہ آئین کی پاسداری کے مطابق سنانا چاہئے نہ کہ ملکی عوام کے اجتماعی جذبات کو مطمئن کرنے کے لئے۔‘‘
محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ ماضی میں دفعہ 370 پر دئے گئے فیصلے کی قدر کرتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس جموں کشمیر کے عوام کے جذبات کی قدر کریں گے اور آئین اور قانون کے حق میں فیصلہ دیں گے نہ کہ ملکی عوام کے ’’اجتماعی جذبات‘‘ کو مطمئن کرنے کے لئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی چاہتی ہے کہ جس آئین نے جموں کشمیر کے لوگوں کو شناخت اور حفاظت دی تھی وہ بحال ہوگا۔
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سو سے زائد ججز کا گزشتہ ماہ سرینگر کے کنونشن سنٹر میں ایک بڑا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ان تمام جج صاحبان نے دانشمندانہ طور پر کشمیر کے حالات کا احاطہ کیا ہوگا نہ کہ سرکار کے زاویے سے وہ متاثر ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس مقصد سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سو دیگر جج صاحبان یہاں لائے گئے اس میں بی جے پی سرکار کا سیاسی مقصد ہوسکتا ہے، لیکن امید ہے کہ ججز اس کے اثر رسوخ میں نہیں آئیں گے۔
مزید پڑھیں: Tarigami on 370 Hearing سماعت سے جموں کشمیرمیں عوامی ذہنوں سےدھندلاہٹ ختم ہوگئی، یوسف تاریگامی
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی پنچ نے چار برس بعد دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر کی گئی 20 عرضیوں کی سماعت کا آغاز کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ دو اگست سے اس مقدمے کی سماعت ہفتے بغیر سوموار اور جمعہ کو کریں گے۔ اس سماعت سے کشمیر کی سیاسی جماعتوں بالخصوص نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور سی پی آئی ایم میں امید کی نئی کرن نظر آرہی ہے، البتہ سابق وزیر الطاف بخاری کی قیادت والی جموں و کشمیر اپنی پارٹی اس سماعت کے معاملے پر خاموش ہے۔