سرینگر کے انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن خرم پرویز activist Khurram Parvez کی گرفتاری پرUN اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی میری لالر(Mary Lawlor) نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گرد نہیں، انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔
انسانی حقوق کے محافظوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ 'میں پریشان کن خبر سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو آج کشمیر میں گرفتار کیا گیا ہے اور بھارت میں ان پر حکام کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزامات عائد کیے جانے کا خطرہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ''وہ دہشت گرد نہیں ہیں، وہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔"
خرم پرویز کو قومی تحقیقاتی ایجنسی یا این آئی اے کے اہلکاروں نے سوموار کے روز سرینگر میں انکی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔ خرم کی اہلیہ ثمینہ نے بتایا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکاروں نے پرویز کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور اس کے (ثمینہ کے) موبائل فون کے ساتھ کچھ کتابیں بھی ضبط کر لیں۔ اور کہا کہ یہ 'دہشت گردی کی فنڈنگ' کا معاملہ ہے۔
42 سالہ پرویز جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCCS) کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوولنٹری ڈسپیئرنس (AFAD) کے چیئرپرسنہیں۔
این آئی اے نے گرفتاری یا چھاپے کے بارے میں فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ شام گئے پرویز کی اہلیہ کو ایک وارنٹ دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ پرویز کو دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعرلق ایک کیس مین گرفتار کیا گیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے پاس موجود وارنٹ کے مطابق پرویز کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتاری کے وقت، وارنٹ کے مطابق، محکمہ مال کے دو مقامی ملازمین بھی موجود تھے۔
این آئی اے کے افسران نے JKCCS کے دفاتر کی 14 گھنٹے سے زیادہ تلاشی لی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی ایجنسی نے وادی میں کئی مقامات پر چھاپے مارے تھے اور خرم پرویز کی بینک تفاصیل اور دیگر دستاویز جانچ کے لیے اپنے قبضہ میں لیے تھے۔ چھاپے کے دوران، تحقیقی مواد، فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز بھی ضبط کیے گئے تھے۔
خرم پرویز عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کارکن ہیں جنہیں اب تک کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ خرم کو حکام نے 2016 میں اس وقت حراست میں لیا تھا جب کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کو کچلنے کیلئے حکام نے طاقت کا استعمال کیا جس میں درجنوں مظاہرین ہلاک ہوئے جبکہ سینکڑوں افراد پیلٹ اور گولیاں کی وجہ سے کلی یا جزوی طور معذور ہوگئے۔ کئی افراد کی بینائی بھی چلی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : NIA arrests Khuram Parvez: انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کو این آئی اے نے گرفتار کیا
ان مظاہروں کے وقت جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت برسراقتدار تھی۔خرم پرویز کی گرفتاری پر عالمی حقوق تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جس کے بعد حکومت نے انہیں رہا کردیا۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے اور ریاست کا نیم خود مختار درجہ ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق اداروں کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں چنانچہ گزشتہ دو برسوں کے دوران خرم اور ان کی تنظیم کی سرگرمیان بھی محدود رہی ہیں۔
واضع رہے گزشتہ برس بھی ایجنسی نے وادی میں کئی مقامات پر چھاپے مارے تھے اور خرم کے بینک تفصیلات اور دیگر دستاویز جانچ کے لیے اپنے قبضہ میں لیے تھے۔
خرم پرویز کے ادارے نے گزشتہ ہفتے سرینگر میں ایک متنازع تصادم پر بیان دیا تھا جس میں حکام نے دعویٰ کیا تھا ایک غیر ملکی عسکریت پسند اور انکے دو معاون ہلاک کئے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ مارے گئے افراد میں سے کم از کم تین لوگ عسکریت پسند نہیں بلکہ عام شہری ہیں۔ اس واقعے پر عوامی ردعمل کے بعد حکام نے مجسٹریل تحقیقات کا حکم جاری کیا اور اب تک دو لاشوں کو انکے ورثاء کے حوالے کیا جاچکا ہے۔
تیسرے ہلاک شدہ شخص عامر ماگرے کے لواحقین بھی لاش کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی عام شہری تھے۔
کشمیر میں حکام گزشتہ دوبرس سے عسکریت پسندوں کی لاشیں انکے ورثاء کو ااخری رسومات کی ادائیگی کیلئے واپس نہیں کررہے ہیں۔ حکام کہتے ہیں کہ ایسا کووڈ وبا سے متعلق حفاظتی تدابیر کے پس منظر میں کیا جارہا ہے لیکن عام لوگوں کا تاًثر ہے کہ حکام چاہتے ہیں کہ عسکریت پسندون کے جنازوں پر لوگوں کی بھاری تعداد جمع نہ ہوجائے۔