ETV Bharat / state

What is Roshni Act: کیا روشنی اسکیم کی تحقیقات پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گی؟

’’روشنی ایکٹ کو نافذ کرنے کا واحد مقصد تھا کہ سرکاری اراضی پر قبضہ کو قانونی قرار دیا جائے، جب کہ پن بجلی پروجیکٹ کے نام پر عوام کو دھوکے میں رکھنا مقصود تھا۔‘‘ Public Opinion on Roshni Act

کیا روشنی اسکیم کی تحقیقات پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گی؟
کیا روشنی اسکیم کی تحقیقات پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گی؟
author img

By

Published : Jun 20, 2022, 5:45 PM IST

سرینگر: جموں و کشمیر میں روشنی اسکیم سب سے بڑی بدعنوانیوں میں شمار کی جاتی ہے کیونکہ اس اسکیم کے تحت 75 ہزار سے زائد سرکاری اراضی یا نزول زمین کو اثر و رسوخ والے افراد نے قبضہ کر کے معمولی معاوضے یا بغیر کسی معاوضے کے مالکانہ حقوق حاصل کیے۔ محکمہ مال کے مطابق روشنی اسکیم کے تحت جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ سے لے کر تحصیل افسران نے اراضی حاصل کی۔

روشنی اسکیم کیا ہے؟

روشنی اسکیم کے نام سے مشہور اس ایکٹ کو فاروق عبد اللہ کی قیادت والی سرکار نے سنہ2001 میں جموں و کشمیر لینڈ آنرز ایکٹ پاس کیا۔ اس ایکٹ کے مطابق ان تمام افراد کو اس زمین کے مالکانہ حقوق دیے جائیں گے جن پر ان کا برسوں سے قبضہ تھا۔ فاروق عبداللہ حکومت کا کہنا تھا کہ ’’اس اسکیم سے سرکار کو پچیس سو کروڑ روپیے کی کمائی ہوگی جس سے پن بجلی پروجیکٹ تعمیر کیے جائیں گے جو پورے جموں و کشمیر کو روشن کریں گے۔‘‘ اسی سے اس کا نام روشنی اسکیم یا ایکٹ دیا گیا۔

کتنی اراضی پر قبضہ کیا گیا؟

محکمہ مال کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں 6,04,602 کنال اراضی روشنی ایکٹ کے تحت لوگوں کو منتقل کی گئی۔ اس اراضی میں جموں میں 5,71,210 کنال اور وادی میں 33,392 کنال اراضی قبضہ داروں کو منتقل کرکے ان کو مالکانہ حقوق دیے گئے۔

سی بی آئی تحقیقات کب سے شروع ہوئی؟

نومبر 2018 میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے روشنی ایکٹ کو منسوخ کر دیا۔ وہیں جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے روشنی ایکٹ کے متعلق ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے اس اسکیم کی تحقیقات سنٹرل بیریو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے سپرد کر دی اور ساتھ ہی سرکار کو ہدایت دی کہ ان تمام افراد کے نام محکمہ مال کی ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں جنہوں نے اس اسکیم سے استفادہ کیا۔

سی بی آئی سے قبل اس اسکیم کی تحقیقات جموں و کشمیر سٹیٹ ویجیلنس کر رہی تھی جس کو اب اینٹی کرپشن بیریو (اے سی بی) کا نام دیا گیا ہے۔ سی بی آئی نے اب تک اس اسکیم میں سترہ مقدمات درج کیے ہیں اور کئی ایک مقامات پر چھاپے بھی مارے۔ اے سی بی نے بھی اس معاملے میں سترہ ایف آئی آر درج کیے تھے۔ گزشتہ روز سی بی آئی نے سرینگر کے معروف تاجر شوکت چودھری کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان سے پوچھ گچھ کی۔ شوکت چودھری ہیٹرک گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ یہ گروپ سرینگر میں بیکری، پرائیویٹ اسکول چلا رہا ہے۔

شوکت چودھری نے سرینگر کے جواہر نگر علاقے میں سابق وزیر محبوب بیگ سے آٹھ مرلے اراضی لی اور چھ سرکاری افسران کی ایک کمیٹی نے ان کو اس زمین کے مالکانہ حقوق دیے جس پر مقدمہ درج ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نرسنگ گڑھ، جواہر نگر میں آٹھ کنال زمین محبوب بیگ اور ان کی اہلیہ کو محبوب بیگ کے والد مرزا افضل بیگ نے ’تحفے‘ میں دی تھی۔ مرزا افضل بیگ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ محبوب بیگ نیشنل کانفرنس دور حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں اور اب پی ڈی پی میں شامل ہوئے ہیں۔

تاجر شوکت چودھری، کشمیر کے ان تاجروں میں شامل تھے جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے دلی میں ملاقات کی۔ اس میٹنگ کے بعد ان تاجرین نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں وزیر اعظم سے روشنی اسکیم کے تحت لیز پر لی گئی زمین کے معاملے پر نظر ثانی کرنے کی گزارش کی۔ وہیں چند مالکان نے اس اسکیم کی منسوخی کے خلاف سپریم کوٹ میں بھی عرضی دائر کی ہے۔

اسکیم سے استفادہ ہوئے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کون ہیں؟

محکمہ مال کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، مصطفی کمال، سابق ایم ایل سی اور پی ڈی پی کے رہنما نظام الدین کھٹانہ، حسیب درابو، کانگریس کے ایک با اثر رہنما منوہر لال شرما کے بیٹے سنجیو شرما، سابق قانون ساز کونسل کے چیئرمین امرت ملہوترا جو کانگریس کے رہنما ہیں، ان کے بیٹے بکرم اور آدتیہ ملہوترا۔ جموں کے تاجر سجاد چودھری، کانگرس کے سابق خزانچی اور ہوٹل براڈوے کے مالک کے کے آملہ، سابق آئی اے ایس افسر محمد شفیع پنڈت اور دیگر بیسیوں افراد کے نام شامل ہیں۔

سیاستدانوں میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے رہنما سید آخون، ہارون چودھری، سابق وزیر سجاد کچلو، سابق کانگریس رہنما اور ایڈوکیٹ جنرل اسلم گونی، سابق چیئرمین جے کے بینک محمد یوسف خان اور کانگریس کے سابق وزیر عبدالمجید وانی بھی شامل ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ زمین قانونی طور پر لیز پر لی تھی یا اپنے والدین سے ورثہ میں ملی تھی جو روشنی ایکٹ کے بعد ان کے نام پر قانونی طور درج یا منتقل ہوئی۔

عدالت عالیہ میں سماعت کا اسٹیٹس

گزشتہ ماہ عدالت عالیہ نے روشنی ایکٹ معاملے کی سماعت کے دوران سی بی آئی اور محکمہ مال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ عدالت نے سی بی آئی کو کہا کہ وہ کیوں سست رفتار سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اب تک کیوں محض سترہ ایف آئی آر ہی درج کی گئی ہیں جب کہ ملوث افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سی بی آئی کونسل نے عدالت کو بتایا تھا کہ محکمہ مال اثر رسوخ والے افراد کی فہرست ان کو پیش نہیں کر رہا ہے جب کہ انہوں نے اب تک چودہ خطوط محکمہ مال کو بھیجے ہیں تاکہ مکمل فہرست اور دستاویز فراہم کیے جا سکیں۔

کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ روشنی مبینہ گھپلہ بھی دیگر انکوائریز کی طرح دم توڑ دے گا جب جموں و کشمیر میں منتخب سرکار اقتدار سنبھالے گی۔ تاہم عدالت عالیہ نے کہا کہ 28 جون کے بعد اس معاملے کی روزانہ سماعت ہوگی۔ عام رائے ہے کہ روشنی ایکٹ کو نافذ کرنے کا واحد مقصد سرکاری اراضی پر قبضہ کو قانونی قرار دینا تھا جب کہ پن بجلی پروجیکٹ کے نام پر محض عوام کو دھوکے میں رکھنا مقصود تھا۔

سرینگر: جموں و کشمیر میں روشنی اسکیم سب سے بڑی بدعنوانیوں میں شمار کی جاتی ہے کیونکہ اس اسکیم کے تحت 75 ہزار سے زائد سرکاری اراضی یا نزول زمین کو اثر و رسوخ والے افراد نے قبضہ کر کے معمولی معاوضے یا بغیر کسی معاوضے کے مالکانہ حقوق حاصل کیے۔ محکمہ مال کے مطابق روشنی اسکیم کے تحت جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ سے لے کر تحصیل افسران نے اراضی حاصل کی۔

روشنی اسکیم کیا ہے؟

روشنی اسکیم کے نام سے مشہور اس ایکٹ کو فاروق عبد اللہ کی قیادت والی سرکار نے سنہ2001 میں جموں و کشمیر لینڈ آنرز ایکٹ پاس کیا۔ اس ایکٹ کے مطابق ان تمام افراد کو اس زمین کے مالکانہ حقوق دیے جائیں گے جن پر ان کا برسوں سے قبضہ تھا۔ فاروق عبداللہ حکومت کا کہنا تھا کہ ’’اس اسکیم سے سرکار کو پچیس سو کروڑ روپیے کی کمائی ہوگی جس سے پن بجلی پروجیکٹ تعمیر کیے جائیں گے جو پورے جموں و کشمیر کو روشن کریں گے۔‘‘ اسی سے اس کا نام روشنی اسکیم یا ایکٹ دیا گیا۔

کتنی اراضی پر قبضہ کیا گیا؟

محکمہ مال کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں 6,04,602 کنال اراضی روشنی ایکٹ کے تحت لوگوں کو منتقل کی گئی۔ اس اراضی میں جموں میں 5,71,210 کنال اور وادی میں 33,392 کنال اراضی قبضہ داروں کو منتقل کرکے ان کو مالکانہ حقوق دیے گئے۔

سی بی آئی تحقیقات کب سے شروع ہوئی؟

نومبر 2018 میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے روشنی ایکٹ کو منسوخ کر دیا۔ وہیں جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے روشنی ایکٹ کے متعلق ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے اس اسکیم کی تحقیقات سنٹرل بیریو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے سپرد کر دی اور ساتھ ہی سرکار کو ہدایت دی کہ ان تمام افراد کے نام محکمہ مال کی ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں جنہوں نے اس اسکیم سے استفادہ کیا۔

سی بی آئی سے قبل اس اسکیم کی تحقیقات جموں و کشمیر سٹیٹ ویجیلنس کر رہی تھی جس کو اب اینٹی کرپشن بیریو (اے سی بی) کا نام دیا گیا ہے۔ سی بی آئی نے اب تک اس اسکیم میں سترہ مقدمات درج کیے ہیں اور کئی ایک مقامات پر چھاپے بھی مارے۔ اے سی بی نے بھی اس معاملے میں سترہ ایف آئی آر درج کیے تھے۔ گزشتہ روز سی بی آئی نے سرینگر کے معروف تاجر شوکت چودھری کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان سے پوچھ گچھ کی۔ شوکت چودھری ہیٹرک گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ یہ گروپ سرینگر میں بیکری، پرائیویٹ اسکول چلا رہا ہے۔

شوکت چودھری نے سرینگر کے جواہر نگر علاقے میں سابق وزیر محبوب بیگ سے آٹھ مرلے اراضی لی اور چھ سرکاری افسران کی ایک کمیٹی نے ان کو اس زمین کے مالکانہ حقوق دیے جس پر مقدمہ درج ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نرسنگ گڑھ، جواہر نگر میں آٹھ کنال زمین محبوب بیگ اور ان کی اہلیہ کو محبوب بیگ کے والد مرزا افضل بیگ نے ’تحفے‘ میں دی تھی۔ مرزا افضل بیگ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ محبوب بیگ نیشنل کانفرنس دور حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں اور اب پی ڈی پی میں شامل ہوئے ہیں۔

تاجر شوکت چودھری، کشمیر کے ان تاجروں میں شامل تھے جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے دلی میں ملاقات کی۔ اس میٹنگ کے بعد ان تاجرین نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں وزیر اعظم سے روشنی اسکیم کے تحت لیز پر لی گئی زمین کے معاملے پر نظر ثانی کرنے کی گزارش کی۔ وہیں چند مالکان نے اس اسکیم کی منسوخی کے خلاف سپریم کوٹ میں بھی عرضی دائر کی ہے۔

اسکیم سے استفادہ ہوئے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کون ہیں؟

محکمہ مال کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، مصطفی کمال، سابق ایم ایل سی اور پی ڈی پی کے رہنما نظام الدین کھٹانہ، حسیب درابو، کانگریس کے ایک با اثر رہنما منوہر لال شرما کے بیٹے سنجیو شرما، سابق قانون ساز کونسل کے چیئرمین امرت ملہوترا جو کانگریس کے رہنما ہیں، ان کے بیٹے بکرم اور آدتیہ ملہوترا۔ جموں کے تاجر سجاد چودھری، کانگرس کے سابق خزانچی اور ہوٹل براڈوے کے مالک کے کے آملہ، سابق آئی اے ایس افسر محمد شفیع پنڈت اور دیگر بیسیوں افراد کے نام شامل ہیں۔

سیاستدانوں میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے رہنما سید آخون، ہارون چودھری، سابق وزیر سجاد کچلو، سابق کانگریس رہنما اور ایڈوکیٹ جنرل اسلم گونی، سابق چیئرمین جے کے بینک محمد یوسف خان اور کانگریس کے سابق وزیر عبدالمجید وانی بھی شامل ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ زمین قانونی طور پر لیز پر لی تھی یا اپنے والدین سے ورثہ میں ملی تھی جو روشنی ایکٹ کے بعد ان کے نام پر قانونی طور درج یا منتقل ہوئی۔

عدالت عالیہ میں سماعت کا اسٹیٹس

گزشتہ ماہ عدالت عالیہ نے روشنی ایکٹ معاملے کی سماعت کے دوران سی بی آئی اور محکمہ مال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ عدالت نے سی بی آئی کو کہا کہ وہ کیوں سست رفتار سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اب تک کیوں محض سترہ ایف آئی آر ہی درج کی گئی ہیں جب کہ ملوث افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سی بی آئی کونسل نے عدالت کو بتایا تھا کہ محکمہ مال اثر رسوخ والے افراد کی فہرست ان کو پیش نہیں کر رہا ہے جب کہ انہوں نے اب تک چودہ خطوط محکمہ مال کو بھیجے ہیں تاکہ مکمل فہرست اور دستاویز فراہم کیے جا سکیں۔

کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ روشنی مبینہ گھپلہ بھی دیگر انکوائریز کی طرح دم توڑ دے گا جب جموں و کشمیر میں منتخب سرکار اقتدار سنبھالے گی۔ تاہم عدالت عالیہ نے کہا کہ 28 جون کے بعد اس معاملے کی روزانہ سماعت ہوگی۔ عام رائے ہے کہ روشنی ایکٹ کو نافذ کرنے کا واحد مقصد سرکاری اراضی پر قبضہ کو قانونی قرار دینا تھا جب کہ پن بجلی پروجیکٹ کے نام پر محض عوام کو دھوکے میں رکھنا مقصود تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.