ETV Bharat / state

کشمیری صحافی ہیومن رائٹس پریس ایوارڈ سے سرفراز

کشمیری صحافی فہد شاہ کو ہیومن رائٹس پریس ایوارڈ 2021 سے نوازا گیا۔ انہیں یہ ایوارڈ دہلی فسادات کے کوریج کے لیے دیا گیا ہے۔

کشمیری صحافی فہد شاہ کو ہیومن رائٹس پریس ایوراڈ
کشمیری صحافی فہد شاہ کو ہیومن رائٹس پریس ایوراڈ
author img

By

Published : May 6, 2021, 5:56 PM IST

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وہ گزشتہ برس دارالحکومت دہلی میں ہوئے فسادات کو کور کرنے کے لیے کشمیر سے گئے تھے۔ ان کی خبریں وائس نیوز اور امریکی رسالہ 'دی نیشن' میں شائع بھی ہوئی تھی۔'

کشمیری صحافی فہد شاہ کو ہیومن رائٹس پریس ایوراڈ

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'انہیں ان کی شائع نیوز فیچر کے بنا پر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں اس سلسلے میں اپنے ساتھیوں اور سینیئر کا شکر گزار ہوں۔'


واضح رہے کہ گذشتہ برس 23 فروری کو شمال مشرقی دہلی میں موت کا یہ رقص اس وقت جاری رہا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھے۔ 23 تا 27 فروری تک جاری رہنے والے اس فساد میں تقریباً 54 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ کئی دنوں تک بے گور و کفن لاشیں شہر کے نکاس کی نالیوں میں پڑی رہیں۔

دارالحکومت دہلی میں تشدد کا سلسلہ 23 فروری کو شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پتھراؤ سے شروع ہوا۔ دراصل 23 فروری سنہ 2020 کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف بھیم آرمی نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔ بھیم آرمی کی اس کال پر 500 سے 1000 خواتین دہلی کے سیلم پور روڈ کے علاقہ میں دھرنے پر بیٹھ گئیں۔

اسی دوران بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے 23 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین دن میں جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی نہیں کرائی گئیں تو اس کے بعد وہ پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔

کپل مشرا نے جس جگہ یہ بیان دیا وہاں شمال مشرقی دہلی کے ایک اعلیٰ پولیس افسر بھی موجود تھے۔ اس تقریر کے بعد 24 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین اور حامیوں کے درمیان پتھراؤ اور مختلف مقامات پر آگ زنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی یہاں خونریزی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

فسادات کے دوران دہلی پولس کے کردار پر اُنگلیاں اٹھائی گئیں۔ پولیس پر کہیں جانبداری کا الزام لگا تو کہیں انہیں خاموش تماشبین کی حیثیت سے بھی دیکھا گیا۔

دہلی فسادات پر مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے مرکزی اور دہلی سرکار سمیت دہلی پولیس پر شدید تنقید کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 28 اگست کو جاری اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کئی سیاسی رہنماؤں اور دہلی پولیس پر سنگین سوالات اٹھائے۔ اس رپورٹ میں پولیس کے کردار کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے سماجی کارکنان اور طلبا کو نشانہ بنانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ وہیں دہلی اقلیتی کمیشن نے 16 جولائی کو دہلی فسادات پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ان فسادات کو پوگروم یعنی نسل کشی قرار دیا تھا۔

اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسے ایک مخصوص فرقے کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی منصوبہ بند کوشش بتایا۔ اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ تشدّد سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔

دہلی فسادات کے متاثرین میں چند سرکاری اہلکار شامل بھی ہیں اور اکثریتی و اقلیتی فرقوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے عام شہری بھی۔ یہ سبھی متاثرین ایک برس مکمل ہونے کے بعد بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی داد رسی ہوگی اور انہیں انصاف ملے گا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت وقت متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں کب اور کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

ایک ابتدائی اندازے کے مطابق دہلی فساد میں تقریبا 18 ہزار کروڑ روپے کا مالی نقصان بھی ہوا تھا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وہ گزشتہ برس دارالحکومت دہلی میں ہوئے فسادات کو کور کرنے کے لیے کشمیر سے گئے تھے۔ ان کی خبریں وائس نیوز اور امریکی رسالہ 'دی نیشن' میں شائع بھی ہوئی تھی۔'

کشمیری صحافی فہد شاہ کو ہیومن رائٹس پریس ایوراڈ

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'انہیں ان کی شائع نیوز فیچر کے بنا پر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں اس سلسلے میں اپنے ساتھیوں اور سینیئر کا شکر گزار ہوں۔'


واضح رہے کہ گذشتہ برس 23 فروری کو شمال مشرقی دہلی میں موت کا یہ رقص اس وقت جاری رہا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھے۔ 23 تا 27 فروری تک جاری رہنے والے اس فساد میں تقریباً 54 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ کئی دنوں تک بے گور و کفن لاشیں شہر کے نکاس کی نالیوں میں پڑی رہیں۔

دارالحکومت دہلی میں تشدد کا سلسلہ 23 فروری کو شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پتھراؤ سے شروع ہوا۔ دراصل 23 فروری سنہ 2020 کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف بھیم آرمی نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔ بھیم آرمی کی اس کال پر 500 سے 1000 خواتین دہلی کے سیلم پور روڈ کے علاقہ میں دھرنے پر بیٹھ گئیں۔

اسی دوران بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے 23 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین دن میں جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی نہیں کرائی گئیں تو اس کے بعد وہ پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔

کپل مشرا نے جس جگہ یہ بیان دیا وہاں شمال مشرقی دہلی کے ایک اعلیٰ پولیس افسر بھی موجود تھے۔ اس تقریر کے بعد 24 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین اور حامیوں کے درمیان پتھراؤ اور مختلف مقامات پر آگ زنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی یہاں خونریزی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

فسادات کے دوران دہلی پولس کے کردار پر اُنگلیاں اٹھائی گئیں۔ پولیس پر کہیں جانبداری کا الزام لگا تو کہیں انہیں خاموش تماشبین کی حیثیت سے بھی دیکھا گیا۔

دہلی فسادات پر مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے مرکزی اور دہلی سرکار سمیت دہلی پولیس پر شدید تنقید کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 28 اگست کو جاری اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کئی سیاسی رہنماؤں اور دہلی پولیس پر سنگین سوالات اٹھائے۔ اس رپورٹ میں پولیس کے کردار کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے سماجی کارکنان اور طلبا کو نشانہ بنانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ وہیں دہلی اقلیتی کمیشن نے 16 جولائی کو دہلی فسادات پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ان فسادات کو پوگروم یعنی نسل کشی قرار دیا تھا۔

اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسے ایک مخصوص فرقے کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی منصوبہ بند کوشش بتایا۔ اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ تشدّد سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔

دہلی فسادات کے متاثرین میں چند سرکاری اہلکار شامل بھی ہیں اور اکثریتی و اقلیتی فرقوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے عام شہری بھی۔ یہ سبھی متاثرین ایک برس مکمل ہونے کے بعد بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی داد رسی ہوگی اور انہیں انصاف ملے گا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت وقت متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں کب اور کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

ایک ابتدائی اندازے کے مطابق دہلی فساد میں تقریبا 18 ہزار کروڑ روپے کا مالی نقصان بھی ہوا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.