جموں و کشمیر اب ایک ریاست نہیں ہے۔ بھارت کا تاج کہلانے والی ریاست اب دو حصوں میں بٹ چکی ہے ۔ریاست کو خصوصی آئینی درجہ دینے والی دفعہ 370 ، اب غیر فعال ہوگئی ہے اور حکومت کہتی ہے کہ اس دفعہ کے خاتمے سے جموں و کشمیر میں ترقی کے سوتے پھوٹ پڑیں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے وہی کیا جسکا انکی پارٹی بی جے پی نے دہائیوں سے وعدہ کیا تھا۔ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت کے منتظر تھے اور جونہی انہیں طاقت حاصل ہوئی، انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنایا۔ لیکن ایک وعدہ ہے جو ریاست کے حصے بخرے ہونے کے بعد پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جموں و کشمیر، ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی تشدد کا بھیانک سایہ اس خطے کا پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔پیش ہے ای ٹی وی بھارت کی ایک رپورٹ
جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے فیصلوں کے خلاف وادی میں میں کاروبار زندگی تین ماہ سے تھم گیا ہے۔ پہلے حکام نے سخت ترین بندشیں عائد کیں اور بعد میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا۔ تین ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال کے سبب ہر شعبہ اور طبقہ برُی طرح متاثر ہوا ہے۔
کشمیر کی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 3 ماہ کے دوران ہوٹلز اور نجی اداروں میں کام کر رہے 2 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ سلسلہ روز بہ روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
باغبانی صنعت کشمیر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تقریباً 7 لاکھ افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہیں، لیکن موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث وادی کی معشیت بُری طرح متاثر ہو گئی ہے۔
قالین بافی، ریشم اور شال سازی، پیپر ماشی اور دیگر دستکاریاں تقریباً تین لاکھ سے زائد افراد کے روزگار کا وسیلہ تھیں لیکن یہ صنعتیں دن بدن دم توڑتی نظر آرہی ہیں ۔ شہر و دیہات میں رہنے والے ہزاروں نوجوان اس صورتحال کے نتیجے میں بیروزگار ہورہے ہیں۔
اسی طرح سیاحت سے بھی لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ سنہ 2018 میں 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا لیکن رواں برس ان کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے 50 فیصد بھی نہیں ہے، معروف سیاحتی مقامات گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ اور دودھ پتھری ویران ہیں جبکہ ڈل جھیل کے شکارے گویا منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہوٹل بند پڑے ہیں، سیاحوں کا لانے لیجانے والی گاڑیوں کا پہیہ جام ہے اور تورسٹ گائیڈ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے ہیں۔ وادی کے باشندوں کیلئے یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے۔
انٹرنیٹ صرف اطلاعات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ بھی ہزاروں افراد کا روزگار جُڑا ہوا تھا، براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات مسلسل معطل ہونے سے زندگی کا ہر شعبہ معطل ہوگیا ہے۔ طالب علم، صحافی، ریسرچ اسکالر، کون ہے جو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے پریشان حال نہیں ہے۔
سلامتی صورتحال پر بھی یہ ماہ انتہائی کربناک ثابت ہوئے۔ تشدد کی جڑیں ختم تو نہیں ہوئیں بلکہ اسکا دائرہ وسیع ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس عرصے کے دوران مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے کئی حملے کی گئے جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اوربیسیوں دیگر زخمی ہوگئے۔
جنوبی کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک درجن کے قریب غیر ریاستی باشندوں کو بے رحمی سے ہلاک کر دیا، شمالی کشمیر کے سوپور اور سرینگر کے گونی کھن علاقوں میں ہوئے گرینیڈ حملوں میں کئی افراد لہولہان ہوئے جن میں سے کم از کم ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔
حکومت کہتی ہے کہ سرکاری محکموں میں روزگار کے نئے دروازے کھول دئے جائیں گے۔ پچاس ہزار نوجوانوں کو سرکاری محکموں میں ملازمت فراہم کرنے کاوعدہ کیا جاچکا ہے لیکن اس سمت میں ابھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی سوائے اسکے کہ کہیں ایس پی او اور کہیں فوج میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔
کشمیری عوام دم بخود ہیں اور انکی پہلی ترجیح یہ ہے کہ انہیں اطمینان سے سانس لینے کی ساعتیں نصیب ہوجائیں، فی الحال ایسے امکانات کہیں نظر نہیں آتے۔