ETV Bharat / state

Militancy Related Cases In 2022 جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے بعد کیا عسکریت پسندی میں کمی آئی؟ - جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی

جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کے بعد خطے میں اب تک 468 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 118 عام شہری، 135 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 638 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ ہلاکتیں (321) سال 2020 میں ہوئی ہیں، جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے 232 عسکریت پسند ہلاک کے گئے، وہیں 33 عام شہری اور 56 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں بھی جان گنواں بیٹھے ہیں۔Militancy Incidents In 2022 in Kashmir

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Dec 27, 2022, 5:34 PM IST

Updated : Dec 27, 2022, 5:39 PM IST

سرینگر: اگرچہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے جموں و کشمیر انتظامیہ، مرکزی حکومت اور پولیس کی جانب سے کئی بیانات دیے گئے ہیں۔ بیشتر بیانات میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وادی میں عسکریت پسندی ختم ہونے کے کہگار پر ہے اور ہر گزشتہ برس کے ساتھ اس میں کمی نظر آرہی ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کیے جانے کے وقت بھی دعوی کیا گیا تھا کہ "اس اقدام سے کشمیر میں عسکریت پسندی کی قمر ٹوٹ جائے گی۔" وہیں سرکاری اعداد و شمار سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران جموں و کشمیر میں کُل ہلاکتوں میں معمولی کمی آئی ہے تاہم امسال انتظامیہ اور پولیس کے لیے ٹارگٹ کلنگ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔Militancy Incident Post Abrogation Of Article 370

Incidents AFTER ABROGATION OF ARTICLE 370
Incidents AFTER ABROGATION OF ARTICLE 370
جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کے بعد خطے میں اب تک 468 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 118 عام شہری، 135 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 638 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ ہلاکتیں (321) سال 2020 میں ہوئی ہیں، جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے 232 عسکریت پسند ہلاک کے گئے، وہیں 33 عام شہری اور 56 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں بھی جان گنواں بیٹھے ہیں۔

وہیں اگر سال 2022 کی بات کریں تو نومبر مہینے کی آخر تک خطے میں کل 147 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 30 عام شہری، 30 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 186 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ وہیں سال کا سب سے خونی ماہ جون رہا، جون میں کل ہلاکتیں 40 درج کی گی ہیں، وہیں اسی مہینے میں تین عام شہری، دو سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 35 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔جولائی میں سب سے کم ہلاکتیں 8 درج کی گی ہے، اس دوران پانچ عسکریت پسند اور تین سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔Militants Killed In 2022

Militant Incidents IN 2022 IN JK
Militant Incidents IN 2022 IN JK
امسال انتظامیہ کے سامنے ٹارگٹ کلنگ ایک پیچیدہ مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ اعداد و شمار کے مطابق امسال ٹارگیٹ کلنگ کے 19 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 10 مسلم، 6 غیر کشمیری اور تین کشمیری پنڈت شامل ہیں۔اعداد شمار کے مطابق امسال کی سب سے پہلی ٹارگٹ کلنگ دو مارچ کو پیش آئی جب پنچ، جس کی شناخت محمد یعقوب ڈار کے طور پر ہوئی کو کولگام میں مشتبہ عسکریت پسننے گولی مار کر ہلاک کیا۔Target killing in 2022


اسی طرح 9 مارچ کو ایک سرپنچ سمیر احمد بٹ کو مسلح بندوق برداروں نے سرینگر کے مضافات میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد مارچ مہینے کی 11 تاریخ کو کولگام ضلع کے اڈورہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے سرپنچ شبیر احمد میر کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مارچ 21 کو بڈگام ضلع کے گوٹ پورہ علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک شہری، تجمل محی الدین راتھر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 26 مارچ کو عسکریت پسندوں نے ضلع بڈگام میں اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) اشفاق احمد ڈار اور ان کے بھائی عمر احمد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر اپریل مہینے کی چار تاریخ کو کشمیری پنڈت بال کرشن نامی ایک دکاندار کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے ان کی رہائش گاہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 13 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے کولگام ضلع میں ایک شہری ستیش کمار سنگھ کو اس کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سنگھ ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا اور اس کا تعلق راجپوت برادری سے تھا، جو تقریباً 70 سال قبل پنجاب سے کولگام اور شوپیاں کی سرحد سے متصل علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ اس کے بعد 15 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے بارہمولہ ضلع کے ایک باغ میں سرپنچ منظور احمد بنگرو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ اس سال ہلاک ہونے والے تیسرے سرپنچ تھے۔

ٹارگٹ کللنگس کا سلسلہ مئی کے مہینے میں بھی جاری رہا۔ مئی میں کُل پانچ ہلاکتیں پیش آئی۔ ان میں کشمیری پنڈت راہل بھٹ اور اداکارہ امبرین بٹ بھی شامل تھیں۔ 12 مئی کو سرکاری ملازم راہل بھٹ کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے ضلع بڈگام میں ان کے دفتر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسے 2010-11 میں پی ایم پیکیج کے تحت چاڈورہ کے تحصیل آفس میں کلرک کی نوکری انجام دے رہا تھا۔

اسی دن پولیس کانسٹیبل ریاض احمد ٹھوکر کو عسکریت پسندوں نے پلوامہ میں ان کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 17 مئی کو رنجیت سنگھ جو بارہمولہ میں ایک نئی کھلی ہوئی شراب کی دکان پر سیلز مین کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک گرینیڈ حملے میں مارا گیا تھا۔

Target killing in j&k in 2022
Target killing in j&k in 2022

25 مئی کو بڈگام ضلع میں ایک ٹیلی ویژن آرٹسٹ امرین بٹ کو مشبتہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کیا ۔ اس حملے میں اس کا 10 سالہ بھتیجا زخمی ہوا۔ 31 مئی کو جموں و کشمیر میں ٹارگیٹ حملوں کے ایک اور واقعے رونما ہوا جس میں کولگام ضلع میں عسکریت پسندوں نے ایک ہندو اسکول ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 36 سالہ رجنی بالا جموں خطے کے سامبہ کی رہنے والی تھی او وہ کولگام کے گوپال پورہ علاقے میں بطور ٹیچر تعینات تھی۔

اس کے بعد یکم جون کو راجستھان کے ایک بینک منیجر کو ضلع کولگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وجے کمار علاقی دیہاتی بینک کے کولگام برانچ میں بینک منیجر تھے۔ 22 جون کو ایک پولیس انسپکٹر پرویز احمد ڈار کو دو نامعلوم عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ سرینگر نوگام علاقے میں نماز پڑھنے جا رہے تھے۔

اس کے بعد جموں و کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں 11 اگست کو بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر مزدور کو عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 16 اگست کو عسکریت پسندوں نے سنیل کمار بٹ کو شوپیاں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اس حملے میں ان کا رشتہ دار پتامبر ناتھ بٹ زخمی ہواا تھا۔ سال کی آخری ٹارگٹ کلنگ اکتوبر مہینے کی 15 تاریخ کو پیش آئی جب شوپیاں میں عسکریت پسندوں نے پورن کرشنا بٹ کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

جموں و کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات
Graph Of TARGET KILLING IN JK

مزید پڑھیں: Target Killing in Kashmir کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات


اس کے علاوہ مزید امسال صحافیوں کو بھی مبینہ عسکریت پسندوں کے جانب سے آن لائن دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے پیش نظر کم از کم پانچ صحافیوں نے اپنے اداروں سے استعفیٰ دیا۔ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے مقامی صحافیوں سے کی ہفتوں تک پوچھ گچھ کی اور ابھی بھی اس معاملے میں تحقیقات جاری ہے۔Online Threat Journalists In Kashmir

ان سب کے حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے پولیس کے اعلی افسران سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " امسال عسکری وارداتوں میں کمی آئی ہے، ٹارگٹ کلنگز کے لیے ذمہ دار عسکریت پسندوں کو تصادم کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کو دی گی آن لائن دھمکیوں کے معاملے کی تحقیقات ابھی جاری ہے اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "بیشتر ٹارگٹ کللنگز ہائی برڈ عسکریت پسندوں نے انجام دی تھی۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر کے بعد کوئی بھی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی ہے، ہمارا سرولنس عسکریت پسندوں اور ان کے ہنڈلیرس کے لئے سر درد ہے۔ عسکریت پسندی کے خلاف سکیورٹی فروسز کی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ انہوں نے والدین سے گزارش کہ کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھنے اور غلط راہ پر انہیں جانے سے روکیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

UAPA Cases in Kashmir عسکریت پسندی سے متعلق جرائم میں 97 فیصد کیسز یو اے پی اے کے تحت درج

سرینگر: اگرچہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے جموں و کشمیر انتظامیہ، مرکزی حکومت اور پولیس کی جانب سے کئی بیانات دیے گئے ہیں۔ بیشتر بیانات میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وادی میں عسکریت پسندی ختم ہونے کے کہگار پر ہے اور ہر گزشتہ برس کے ساتھ اس میں کمی نظر آرہی ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کیے جانے کے وقت بھی دعوی کیا گیا تھا کہ "اس اقدام سے کشمیر میں عسکریت پسندی کی قمر ٹوٹ جائے گی۔" وہیں سرکاری اعداد و شمار سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران جموں و کشمیر میں کُل ہلاکتوں میں معمولی کمی آئی ہے تاہم امسال انتظامیہ اور پولیس کے لیے ٹارگٹ کلنگ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔Militancy Incident Post Abrogation Of Article 370

Incidents AFTER ABROGATION OF ARTICLE 370
Incidents AFTER ABROGATION OF ARTICLE 370
جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کے بعد خطے میں اب تک 468 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 118 عام شہری، 135 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 638 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ ہلاکتیں (321) سال 2020 میں ہوئی ہیں، جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے 232 عسکریت پسند ہلاک کے گئے، وہیں 33 عام شہری اور 56 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں بھی جان گنواں بیٹھے ہیں۔

وہیں اگر سال 2022 کی بات کریں تو نومبر مہینے کی آخر تک خطے میں کل 147 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 30 عام شہری، 30 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 186 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ وہیں سال کا سب سے خونی ماہ جون رہا، جون میں کل ہلاکتیں 40 درج کی گی ہیں، وہیں اسی مہینے میں تین عام شہری، دو سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 35 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔جولائی میں سب سے کم ہلاکتیں 8 درج کی گی ہے، اس دوران پانچ عسکریت پسند اور تین سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔Militants Killed In 2022

Militant Incidents IN 2022 IN JK
Militant Incidents IN 2022 IN JK
امسال انتظامیہ کے سامنے ٹارگٹ کلنگ ایک پیچیدہ مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ اعداد و شمار کے مطابق امسال ٹارگیٹ کلنگ کے 19 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 10 مسلم، 6 غیر کشمیری اور تین کشمیری پنڈت شامل ہیں۔اعداد شمار کے مطابق امسال کی سب سے پہلی ٹارگٹ کلنگ دو مارچ کو پیش آئی جب پنچ، جس کی شناخت محمد یعقوب ڈار کے طور پر ہوئی کو کولگام میں مشتبہ عسکریت پسننے گولی مار کر ہلاک کیا۔Target killing in 2022


اسی طرح 9 مارچ کو ایک سرپنچ سمیر احمد بٹ کو مسلح بندوق برداروں نے سرینگر کے مضافات میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد مارچ مہینے کی 11 تاریخ کو کولگام ضلع کے اڈورہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے سرپنچ شبیر احمد میر کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مارچ 21 کو بڈگام ضلع کے گوٹ پورہ علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک شہری، تجمل محی الدین راتھر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 26 مارچ کو عسکریت پسندوں نے ضلع بڈگام میں اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) اشفاق احمد ڈار اور ان کے بھائی عمر احمد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر اپریل مہینے کی چار تاریخ کو کشمیری پنڈت بال کرشن نامی ایک دکاندار کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے ان کی رہائش گاہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 13 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے کولگام ضلع میں ایک شہری ستیش کمار سنگھ کو اس کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سنگھ ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا اور اس کا تعلق راجپوت برادری سے تھا، جو تقریباً 70 سال قبل پنجاب سے کولگام اور شوپیاں کی سرحد سے متصل علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ اس کے بعد 15 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے بارہمولہ ضلع کے ایک باغ میں سرپنچ منظور احمد بنگرو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ اس سال ہلاک ہونے والے تیسرے سرپنچ تھے۔

ٹارگٹ کللنگس کا سلسلہ مئی کے مہینے میں بھی جاری رہا۔ مئی میں کُل پانچ ہلاکتیں پیش آئی۔ ان میں کشمیری پنڈت راہل بھٹ اور اداکارہ امبرین بٹ بھی شامل تھیں۔ 12 مئی کو سرکاری ملازم راہل بھٹ کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے ضلع بڈگام میں ان کے دفتر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسے 2010-11 میں پی ایم پیکیج کے تحت چاڈورہ کے تحصیل آفس میں کلرک کی نوکری انجام دے رہا تھا۔

اسی دن پولیس کانسٹیبل ریاض احمد ٹھوکر کو عسکریت پسندوں نے پلوامہ میں ان کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 17 مئی کو رنجیت سنگھ جو بارہمولہ میں ایک نئی کھلی ہوئی شراب کی دکان پر سیلز مین کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک گرینیڈ حملے میں مارا گیا تھا۔

Target killing in j&k in 2022
Target killing in j&k in 2022

25 مئی کو بڈگام ضلع میں ایک ٹیلی ویژن آرٹسٹ امرین بٹ کو مشبتہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کیا ۔ اس حملے میں اس کا 10 سالہ بھتیجا زخمی ہوا۔ 31 مئی کو جموں و کشمیر میں ٹارگیٹ حملوں کے ایک اور واقعے رونما ہوا جس میں کولگام ضلع میں عسکریت پسندوں نے ایک ہندو اسکول ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 36 سالہ رجنی بالا جموں خطے کے سامبہ کی رہنے والی تھی او وہ کولگام کے گوپال پورہ علاقے میں بطور ٹیچر تعینات تھی۔

اس کے بعد یکم جون کو راجستھان کے ایک بینک منیجر کو ضلع کولگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وجے کمار علاقی دیہاتی بینک کے کولگام برانچ میں بینک منیجر تھے۔ 22 جون کو ایک پولیس انسپکٹر پرویز احمد ڈار کو دو نامعلوم عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ سرینگر نوگام علاقے میں نماز پڑھنے جا رہے تھے۔

اس کے بعد جموں و کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں 11 اگست کو بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر مزدور کو عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 16 اگست کو عسکریت پسندوں نے سنیل کمار بٹ کو شوپیاں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اس حملے میں ان کا رشتہ دار پتامبر ناتھ بٹ زخمی ہواا تھا۔ سال کی آخری ٹارگٹ کلنگ اکتوبر مہینے کی 15 تاریخ کو پیش آئی جب شوپیاں میں عسکریت پسندوں نے پورن کرشنا بٹ کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

جموں و کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات
Graph Of TARGET KILLING IN JK

مزید پڑھیں: Target Killing in Kashmir کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات


اس کے علاوہ مزید امسال صحافیوں کو بھی مبینہ عسکریت پسندوں کے جانب سے آن لائن دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے پیش نظر کم از کم پانچ صحافیوں نے اپنے اداروں سے استعفیٰ دیا۔ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے مقامی صحافیوں سے کی ہفتوں تک پوچھ گچھ کی اور ابھی بھی اس معاملے میں تحقیقات جاری ہے۔Online Threat Journalists In Kashmir

ان سب کے حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے پولیس کے اعلی افسران سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " امسال عسکری وارداتوں میں کمی آئی ہے، ٹارگٹ کلنگز کے لیے ذمہ دار عسکریت پسندوں کو تصادم کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کو دی گی آن لائن دھمکیوں کے معاملے کی تحقیقات ابھی جاری ہے اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "بیشتر ٹارگٹ کللنگز ہائی برڈ عسکریت پسندوں نے انجام دی تھی۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر کے بعد کوئی بھی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی ہے، ہمارا سرولنس عسکریت پسندوں اور ان کے ہنڈلیرس کے لئے سر درد ہے۔ عسکریت پسندی کے خلاف سکیورٹی فروسز کی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ انہوں نے والدین سے گزارش کہ کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھنے اور غلط راہ پر انہیں جانے سے روکیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

UAPA Cases in Kashmir عسکریت پسندی سے متعلق جرائم میں 97 فیصد کیسز یو اے پی اے کے تحت درج

Last Updated : Dec 27, 2022, 5:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.