سرینگر: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر رہنما و ترجمان اعلی سہیل بخاری نے دفعہ 370 کے خاتمے کے 4 سال مکمل ہونے پر کہا کہ 5 اگست 2019 جموں وکشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب۔اس دن نہ صرف جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا بلکہ یہاں کے لوگوں کے حقوق بھی سلب کیے گئے۔وہیں آئینی اور جمہوری اقدار کو پامال کیا گیا۔ان باتوں کا اظہار سہیل بخاری نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ ایک بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا 5 اگست کشمیر کی تاریخ کا تاریکی دن کہلاتا ہے، جس میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کے لوگوں کے حقوق پر شب خون مارا گیا اور ملک کے آئین اور قانون کی بھی دھجیاں اڑھائی۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے یہاں کے خصوصی حثیت کو ختم کر کے یہ باور کرایا گیا کہ دفعہ 370 جموں وکشمیر کی ترقی میں ایک رکاوٹ تھی۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جموں وکشمیر اور لداخ کے لوگوں پر دھونس دباؤ کی حکومت چلائی جارہی ہے اور طاقت کے بل پر عوام پر ظلم وجبر کیا جارہا ہے۔5 اگست کے بعد سے ہی یہاں کے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
سہیل بخاری نے کہا کہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ دفعہ 370 کی منسوخی اس لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ دفعہ جموں وکشمیر کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اب گزشتہ 4 برس میں کون سی ترقی اور خوشحالی دیکھنے میں آرہی ہے جو کہ دفعہ 370 کی وجہ سے اب تک نہیں ہو پائی تھی۔کون سا نیا جموں وکشمیر لوگوں کو دیکھنے کو ملا۔الٹا یہاں وہ قوانین تھوپے جارہے ہیں جن سے عوام کی زندگیاں اجیرن بنتی جارہی ہے۔
روزمرہ کے معاملات ہوں یا روزگار کے کوئی بھی مسئلہ لوگوں کا حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔اس پر ستم ظریفی ہے کہ جس عوام پر یہ زور زبردستی کی حکومت کر رہے ہیں انہیں یہ حق بھی نہیں کہ وہ حکومت اور ایل جی انتظامیہ کے خلاف اپنی آواز بلند کرسکے اور جو بھی کوئی بات کرنے کی کوشش کررہا ہے اس سے پی ایس اے اور یو اے پی اے کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دی جارہا ہے۔
اسمبلی انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ دفعہ 370 کی بحالی ہمارے نزدیک اسمبلی انتخابات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جس طریقے سے ہر محاذ پر لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق سے دور رکھا گیا ہے ایسے میں نہیں لگتا ہے کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات کرانے کے حق میں ہے کیونکہ بی جے پی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام انہیں انتخابات میں منہ توڑ جواب دے گے اور انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں:
- جموں وکشمیر میں صدر راج کے پانچ برس مکمل، اسمبلی انتخابات کب ہوں گے؟
- دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد عسکریت پسند کارروائیوں میں کمی، جموں و کشمیر پولیس
- جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات پر ابہام برقرار
انہوں نے کہا کہ حکومت دعوی کررہی ہے کہ جموں وکشمیر میں تھری ٹائر پنچایتی نظام کو مستحکم کیا گیا ہے لیکن جو پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور جو نمائندے ان میں منتخب ہوئے انہیں کون سے اختیارات دئیے گئے اور ان کے حد اختیار میں ہے کیا۔
سہل بخاری نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا جو ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور یہ ماڈل اگر ترقی کے لیے اتنا ہی اچھا تو اس ماڈل کو مرکزی حکومت دیگر ریاستوں اور یوٹیز میں کیوں نہیں اپنا رہی ہے۔ایسے میں یہ صاف عیاں ہے کہ بی جے پی کی نیت میں ہی کھوٹ ہے اور وہ جموں وکشمیر کے عوام کو جان بوجھ کر جمہوری اور بنیادی حقوق سے دور رکھ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 میں جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا جو کہ اب جموں وکشمیر اور لداخ یوٹیز کہلاتی ہیں۔