ای ٹی وی بھارت کےساتھ بات کرتے ہوئے ایس ایم مشتاق نے کہا کہ انہیں لڑکپن سے ہی فنکاری اور آرٹ میں دلچسپی تھی اور ستّر کی دہائی میں انہوں نے باضابطہ سرینگر کے 'میوزک اینڈ فائن آرٹ' کالج میں داخلہ لیا، تاہم والد کی وفات کے بعد وہ کورس مکمل نہ کر سکے اور تلاش معاش کے لئے بیرون وادی چلے گئے لیکن انہوں نے آرٹ کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔
اپنی زندگی کے مختلف ادوار اور نشیب و فراز کا تذکرہ کرتے ہوئے ایس ایم مشتاق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ حالات و واقعات حتیٰ کہ جان لیوا بیماری کے بعد بھی مایوس اور پسپا نہ ہوئے۔
ایس ایم مشتاق نے آرٹ کو ہی ذریعہ معاش بھی بنایا اور مختلف فنون خصوصاً لینڈ اسکیپ اور پورٹ ریٹ میں طبع آزمائی اور مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ خطاطی خصوصاً عربی/اسلامی کیلیگرافی کی جانب مائل ہوئے۔
ایس ایم مشتاق کے مطابق انہوں نے سرطان کے علاج کے دوران بھی قلم اور کاغذ سے دوری اختیار نہیں کی اور ہسپتال کے بیڈ پر بھی وہ اپنے فن کے ذریعے اپنے مشاہدات کو مختلف رنگوں اور لکیروں کے ذریعے پروتے رہے۔
اپنے ایک فرزند کے آرٹ کی جانب مائل ہونے پر ایس ایم مشتاق نے مسرت کا اظہار کیا۔
ایس ایم مشتاق ریاست کے کئی اداروں سے انعامات و توصیفی اسناد سے بھی نوازے گئے ہیں۔